واقعہ عاشق جن کا اردو میں

Real Horror Stories In Urdu Read Online

Real Horror Stories In Urdu Read Online

واقعہ عاشق جن کا اردو میں 

یہ کوئی دیڑھ سال پہلے کی بات ہے جب اس کا فون آیا۔ مجھے اس نے اپنا نام نور زیب بتایا۔ اور میرے ایک پرانے جاننے والے کا حوالہ دیا۔ اور کہا کے ایک مسئلہ کے سلسلہ میں آپ سے ملنا ہے۔ کیونکہ حوالہ والے دوست کا پہلے ہی فون آ چکا تھا کہ ان کا مسئلہ حل کرنا ہے۔ اس لیے میں نے انہیں اگلے دن کا وقت دے دیا۔ اگلے دن مقررہ وقت پر وہ اپنی والدہ کے ساتھ میرے سامنے تھی۔  میری توقع کے برعکس وہ پردہ میں تھی۔

حالانکہ جو کچھ اس کے بارے میں دوست نے بتایا تھا نقشہ کچھ اور بنتا تھا۔ خیر میں نے کہا کہ ہاں جی مسئلہ بیان کریں۔ تو اس نے کہا کہ مسئلہ چونکہ بہت پرانا ہے تو میں چاہتی ہوں کہ تفصیل سے بیان کروں۔ میں بھی چونکہ فارغ ہی تھا تو کہا کہ ٹھیک ہے۔ تو اس نے کہا کہ یہ کوئی دس سال پہلے کی بات ہے ہم لوگ لندن میں رہتے تھے۔ اور کافی ماڈرن تھے انگریزوں کا سا حلیہ ہمارے گھر میں بہن بھائی ماں باپ سب ہی آزاد تھے۔ اور ہر کوئی اپنی مرضی کی ذندگی جی رہا تھا۔  یونیورسٹی میں میرا ایک پاکستانی دوست تھا۔ جو کہ کسی جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ 

اور جھنگ کے نواع میں ان کی زمینداری تھی۔  جب وہ واپس جانے لگا ڈگری مکمل کے بعد تو اس نے مجھے پاکستان آنے کی دعوت دی۔ خیر کوئی سال ڈیڑھ بعد میری والدہ کی کوئی بہن جو پاکستان میں مقیم تھیں۔ اور ہمیں سالوں ہو گئے تھے ان سے ملے ہوئے ان کا فون آیا کہ ان کا چل چلاو قریب ہے۔ اور وہ والدہ سے ملنا چاہتی ہیں۔ پتا نہیں والدہ کے دل میں بھی کہاں سے بہن کی محبت جاگ اٹھی۔ اور انہوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اچانک میرے ذہن میں اپنی پاکستانی دوست اور اس کی دعوت آگئی۔ اور میں نے والدہ سے کہا کہ میں بھی پاکستان جانا چاہتی ہوں۔ وہاں کچھ دوستوں سے بھی مل لوں گی۔

Horror Stories in Urdu 

خیر ہم دونوں پاکستان آ گئے لاہور کے اپنی خالہ کے گھر قیام کیا۔ گھر کیا بس دو تین کمروں کا مکان تھا۔ میں نے تو ایک رات بہت مشکل سے وہاں گزارا۔ ویسے بھی میری کوئی جذباتی وابستگی تو تھی نہں ان سے سو اگلے دن میں نے ہوٹل میں کمرہ لیا۔ اور وہاں شفٹ ہوگئی۔ اور اپنے دوست کو کال کیا کہ اور اسے بتایا کہ میں پاکستان میں ہوں۔ یہ سن کر وہ بہت حیرت زدہ ہوا کہ تم کیسے آ گئی۔ تم تو پاکستان کے نام سے بھی بھاگتی تھی۔ میں نے کہا کہ تم نے دعوت دی تھی۔ تو آ گئی اب اگر کہتے ہو تو واپس چلی جاتی ہوں۔ 

اس نے کہا کہ نہیں نہیں ایسی بات نہیں تم بتاو کہاں ہو میں لینے آ جاتا ہوں۔ میں نے ہوٹل کا نام بتایا اس نے کہا کہ وہ شام تک آ جائے گا مجھے لینے۔  جون جولائی کے دن تھے۔ گرمی انتہا کی تھی اس لیے میں نے سارا دن کمرے میں۔ گزارا شام میں وہ مجھے لینے آ گیا۔ چائے پینے کے بعد میں نے والدہ کو فون کیا اور بتایا کہ میں اپنے دوست کے ساتھ جا رہی ہوں ۔ وہاں سے ہم اس کے گاوں آ گئے جو کہ جھنگ کے قریب واقع تھا ویسے تو ان کی رہائش لاہور میں بھی تھی مگر میں نے جھنگ جانے کو ترجیح دی۔  رات گئے ہم اس کے گاوں پہنچے جہاں ان کا گھر تھا گھر کیا ایک عالیشان حویلی تھی دروازے پہ اس کی والدہ اور بہنیں کھڑی تھی۔

ایک جج صاحبہ ایک مجرم کو سزا سنانے کا واقعہ 

سلام دعا کے بعد مجھے اندر لے جایا گیا جہاں فریش ہونے کے بعد کھانے کے کمرے میں کھانا کھایا گیا۔  لندن میں رہنے کے باوجود میں رات کو جلدی سونے کی عادی تھی کیونکہ اس سے صحت اچھی رہتی ہے۔  مجھے جو کمرہ دیا گیا اس میں جہازی سائز کا بیڈ تھا اپنی زندگی میں اتنا بڑا لکڑی کا بیڈ میں پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی۔  خیر کمرے میں ہی تھوڑی واک کے بعد میں سونے کے لیے لیٹ گئی ابھی آنکھ لگے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے کوئی گھور رہا ہے چونکہ نیند ابھی کچی تھی اس لیے احساس زیادہ شدت سے ہو رہا تھا۔  میں اٹھ کے بیٹھ گئی کیونکہ احساس بہت شدت سے ہو رہا تھا۔

Hazrat Maryam Story in Urdu

کمرے میں کوئی نہیں تھا میں کے دروازہ کھڑکیاں سب چیک کیا۔ مگر سب بند تھا اے سی چلنے کی وجہ سے کمرہ ٹھنڈا تھا۔ مجھے اب پسینہ آنا شروع ہو گیا تھا۔ دیکھنے جانے کا احساس مسلسل ہو رہا تھا۔ مجھے پہلی دفعہ اپنے چھوٹے کپڑے کی وجہ سے شرم محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے بستر پر موجود چادر لپیٹ لی تو دیکھے جانے کا احساس یکدم ختم ہو گیا۔  میں نے اپنا وہم سمجھا کیونکہ جنات سے کبھی واسطہ نہیں پڑھا تھا۔ یہ نہیں کہ میں ایسی چیزوں کو مانتی نہیں تھی کیونکہ لندن میں بھی بہت سی جگہیں ہنٹڈ مشہور ہیں۔ 

مگر اس وقت میرا دھیان بالکل اس طرف نہیں گیا خیر میں نے چادر لپیٹی اور سو گئی۔ رات کا پتا نہی کونسا پہر تھا جب مجھے احساس ہوا جیسے کوئی میرے جسم پر ہاتھ پھیر رہا ہے۔ نیند بہت گہری ہونے کے باوجود اس ہاتھ کی تپش نے مجھے جاگنے پر مجبور کر دیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی بیڈ سے نیچے اترا ہے۔ وہ چادر جو میں لپیٹ کر سوئی تھی وہ بیڈ کے نیچے پڑی تھی۔ 

پھر اس کے بعد مجھے نیند نہ آئی اور باقی کی رات سوتے جاگتے گزری۔ صبح طبیعت نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے کسلمندی کا شکار تھی۔ اس لیے بیڈ سے اٹھنے کو دل نا کیا۔ مگر چونکہ چائے کی طلب ہو رہی تھی اس لیے کپڑے بدلے اور باہر نکلی۔ ابھی صبح پوری طرح نہیں ہوئی تھی ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ میں گھومتے گھومتے کچن کی طرف نکل گئی جہاں پر ایک ملازمہ تھی اسے چائے کا کہا۔

Horror Story in Urdu Written

تو اس نے کہا کہ بی بی چائے کمرے میں دے دوں یا باغ میں۔ میں نے کہا کہ باغ کہا ہے تو اس نے کہا حویلی کے پچھلی طرف میں نے کہا مجھے باغ کا راستہ بتا دو۔ اور چائے وہاں ہی لے آنا۔  اس نے باہر آ کر مجھے باہر جانے کا رستہ بتایا اور اندر چلی گئی۔ میں وہاں سے باغ میں آئی صبح کی ہوا اور سر سبز درخت دیکھ کر طبیعت تھوڑی بحال ہوئی۔ میں نے باغ جوکہ بس تھوڑے سے پھل دار اور پھولوں والے پودوں پر مشتمل تھا کا ایک چکر لگایا۔

طبیعت زرا فریش ہوئی تو دیکھا وہاں ایک ٹیبل لگا ہوا ہے جس کے ساتھ صرف ایک کرسی پڑی تھی۔ ٹیبل پر پھل جوس اور چائے کے برتن نظر آ رہے تھے۔  میں نے سوچا میں نے تو صرف چائے کا کہا تھا ہو سکتا ہے اس نے سوچا ہو جوس اور پھل بھی دی دیتی ہوں جو کھانا ہو کھا لے گئ۔  طبیعت چونکہ تھوڑی فریش ہو گئی تھی۔ اس لیے چائے کی بجائے جوس کو ترجیح دی جوس بالکل تازہ تھا پی کر طبیعت اور فریش ہو گئی۔  

دو گلاس جوس پینے کے بعد میں اندر آ گئ۔ وہ ملازمہ ملی نہیں ورنہ اس کا شکریہ ادا کرتی۔ خیر دو ملازموں سے پوچھ پوچھ کے اپنے کمرے تک پہنچی نہا کے کپڑے بدلے اس دوران بھی ایک دو بار دیکھے جانے کا احساس ہوا۔ مگر زیادہ دیر نہیں۔ اسی دوران دوست کی بہن آئی اور کہا کے آئیں ناشتہ تیار ہے۔ زندگی میں پہلی دفعہ دیسی ناشتہ کیا جو کہ بہت مزیدار لگا۔  اسی دوران دوست کی چھوٹی بہن  نے کہا کہ آج بارش ہوگی باہر بہت زیادہ بادل آ گئے ہیں۔  یہ ایک اچھی خبر تھی میں نےان کے ساتھ مل کے باہر گھومنے کا پلان بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے وہ مجھے گاوں میں اپنی زمینوں کا وزٹ کروائیں گی۔ بعد میں قریب موجود سلطان باہوؓ کے مزار پہ جائیں گے یا مائی ہیر کے دربار پہ۔

محبت کے واقعات اور کہانیاں 

ناشتے کے بعد ہم پیدل ہی وہاں سےنکلے ہمارے پیچھے کوئی دس گارڈ ہونگے۔ میں نے کہا کہ گارڈز کیوں تو دوست نے بتایا کہ ہم زمینداروں کی دشمنیاں ہوتیں ہیں۔ اس لیے گارڈز رکھتے ہیں۔ وہاں سے ان کے فلیڈز پر پہنچے کافی رقبہ تھا ان کا ان کی کاشت کاری کے نزدیک نہر گزرتی تھی جس پر انہوں نے درخت لگا کر بہت خوبصورت ماحول بنایا ہوا تھا اس دوران بھی مجھے لگا کہ ان سب کے علاوہ بھی میرے ساتھ کوئی ہے جس کی سانسیں بعض دفعہ میں اپنے کانوں کے قریب محسوس کرتی۔

خیر نہر پہ بیٹھ کر ہم نے بہت سی باتیں کی لندن کی یہاں کی اسی دوران باتوں کا رخ جنات کی طرف مڑ گیا۔ تو دوست نے بتایا کہ ان کی حویلی میں بھی کہتے ہیں کہ جنات ہیں مگر آج تک انہوں نے کسی کو کچھ کہا نہیں۔ مگر ان کو محسوس کئی لوگوں نے کیا ہے۔  میں نے کہا کہ وہ کسی خاص جگہ پر ہیں یا پھر پوری حویلی میں پھرتے ہیں تو اس نے بتایا کہ حویلی میں کئی جگہ پر ان کی موجودگی محسوس کی گئی ہے۔ 

میرا دل کیا کہ بتا دوں کہ رات میرے ساتھ کیا ہوا مگر پھر جیسے یہ بات میرے ذہن سے بالکل نکل گئی۔ اور ہم دوسری باتیں کرنے لگے۔ دوپہر کے وقت ہم واپس آئے کھانا کھایا اور آرام کے لیے اپنے اپنے کمروں کی طرف چلے گئے۔ راستے میں میں نے صبح والی ملازمہ کو دیکھا تو میں نے کہا کہ صبح میں نے تمہیں صرف چائے کا کہا تھا۔ مگر تم نے تو جوس اور فروٹ بھی ساتھ رکھ دیا۔

باغ میں ٹیبل پر تو جو اس نے کہا وہ میرے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا اس نے کہا کہ بی بی میں تو باغ میں گئی تھی۔ مگر آپ وہاں نہیں تھی تو میں نے سوچا کہ شاید واپس کمرے میں چلی گئی ہو گیئں۔ تو میں کمرے میں چائے لے کے چلی گئی آپ کے غسل خانے سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی تو میں چائے رکھ کے واپس آ گئی۔

یہ سننے کے بعد مجھے ڈرنا چاہیے تھا۔ مگر پتا نہیں کیوں میرے دل میں زرا بھی ڈر نہیں پیدا ہوا۔ بلکہ میں ہنستے ہوئے وہاں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ کمرے میں جانے کے بعد مجھے یاد آیا کہ ملازمہ کیا کہہ رہی تھی۔ جب میرے ذہن میں وہ باتیں واپس گھومی تو میرے پسینے چھوٹ گئے۔ مجھے یکدم سے کمرے میں خو ف محسوس ہونے لگا۔ جیسے کمرے میں کوئی موجود ہو اور مجھے دیکھ کر مسکر ا رہا ہو۔ میں نے بچپن کے بعد پہلی دفعہ زندگی میں جو جو کچھ بھی ٹوٹا پھوٹا قرآنی آیات یاد تھیں دل میں پڑھنی شروع کردیں۔

تو ڈر کچھ کم ہوا مگر دیکھے جانے کا احساس لگا تار محسوس ہو رہا تھا۔ میں فریش ہونے کے بعد کپڑے بدل کر کمرے سے باہر نکل گئی اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ اپنے دوست کو اس بارے میں بتا دوں گی اور آج اس کمرے میں نہیں سووں گی۔ مگر مجھے کیا پتا تھا کہ قدرت میرا فیصلہ پہلے  ہی لکھ چکی ہے۔ باہر سب جمع تھے کیوں کہ مزار شریف سلطان باہورحمتہ اللہ علیہ پر جانے کا پروگرام تھا۔ جیسے ہی میں سب کے پاس پہنچی کمرے والی بات میرے ذہن سے یوں غائب ہوئی۔

Short Horror Stories in Urdu

 جیسے میرے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہم دو گاڑیوں میں مزار شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں بھی بارہا مجھے کسی کے ساتھ کا احساس ہوتا رہا۔ مگر میں چاہ کر بھی کسی کو اس بارے میں نہیں بتا سکی ۔ جب بھی ارادہ کیا کہ بتاو میرا ذہن بالکل صاف ہو جاتا۔ مزار شریف پر جب ہم پہنچے تو اتنا رش نہیں تھا عوام کا۔ مزار شریف کے سامنے موجود وضو خانے سے سب نے وضو کیے۔ میں جیسے ہی وضو کر کے نیچے اتری ایک فقیرنی جس کے بال مٹی میں اٹے ہوئے تھے یکدم میرے سامنے آگئی۔ فقیرنی کا حلیہ دیکھ کر میں ڈر کے پیچھے ہوئی اور وضو خانے کی سیڑھیوں پر گر گئی۔ فقیرنی میری طرف دیکھتی رہی اور پھر بولی ایسی چیزوں کو ساتھ لے کر اللہ والوں کے پاس نہیں آتے۔

ٹڈا اور گاؤں کے چوہدری کی مزاحیہ کہانی 

میں نے کہا میں سمجھی نہیں تو اس نے کہا یہ کمبخت جو تیرے سر پہ چڑھ کے بیٹھا ہوا ہے اتار اسے۔ میں نے کہا مجھے تو کوئی نہیں دکھ رہا۔ اس نے کہا جھوٹ بولتی ہے تو ، تو جانتی ہے کہ وہ تیرے ساتھ ہے مگر اس نے تیری زبان باندھ دی ہے تو بول نہیں سکتی۔ جا چلی جا واپس یہاں سے جا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ۔ جان چھڑوا اس سے ورنہ یہ ساری زندگی کا روگ بن جائے گا۔ میں نے کہا کہ کیسے جان چھڑواں تو اس نے کہا جا ڈھونڈ اب تیری زندگی تلاش میں ہی گزرے گی۔  اسی دوران مجھے دوست کی بہن نے آواز دی کہ وہاں کیوں بیٹھ گئی ہو آجاو۔ جب میں نے واپس فقیرنی کی طرف دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ میں گھبرا گئی اور بھاگ کر باقی سب کے ساتھ مل گئی۔

 دوست کی بہن نے پوچھا آپ وہاں کیوں بیٹھ گئی تھی۔ ہم آپ کا انتظار کر رہے تھے میں نے کہا کہ مجھے اس فقیرنی نے روک لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کون سی فقیرنی آپ تو اکیلی بیٹھی تھی وہاں۔ یہ سن کر میں اور پریشان ہوگی۔ خیر اندر گئے مزار کے دعا کی ذہن میں عجیب عجیب سے خیالات آ رہے تھے۔ گڑگڑا کر دعا مانگی کے اب کوئی گناہ نہی کروں گی بس اس سے جان چھڑوا دو۔ کیونکہ اب میں حقیقتاً پریشان ہوگئی تھی۔

وہاں سے واپسی پہ ہم مائی ہیر کے دربار پہ آئے وہاں بھی مجھے وہ فقیرنی نظر آئی۔ جب میں نے اپنے دوست کو کہا کہ وہ دیکھو وہ فقیرنی تو اس کو وہ نظر نہ آئی۔ اس نے کہا کہ تمہیں وہم ہو رہا ہے۔ پتا نہیں کیسے میری زبان کھل گئی اور میں نے ساری تفصیل اپنے دوست کو بتادی۔

 ساری تفصیل سننے کے بعد وہ بھی پریشان ہوگیا۔ اور مجھے کہا کہ کل کو میں تمہیں قریب ہی موجود کسی بزرگ کے پاس لے جاوں گا۔ آج رات تم چھوٹی بہن کے ساتھ سو جانا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ رات میں اس کی چھوٹی بہن کے ساتھ سوئی دیکھے جانے کا احساس تو رہا مگر اس سے زیادہ کچھ نہ ہوا اور رات گزر گئی۔ صبح ناشتہ کے بعد میں نے دوست سے کہا کہ چلو مجھے وہاں لے چلو تو اس نے کہا چلو ہم اس کے گاوں کے ساتھ واقع ایک دوسرے گاوں میں پہنچے۔ میرے خیال میں وہاں اس نے پہلے ہی اطلاع کر دی ہو گی کیونکہ کافی لوگوں کی موجودگی کے باوجود ہمیں پہلے اندر جانے دیا گیا۔ 

یا کوئی اور وجہ رہی ہو گی۔ اندر ایک بزرگ کوئی پچاس سال کے قریب عمر ہوگی سفید کالی ڈارھی لمبے بال بیٹھا ہوا تھا۔ سلام دعا کے بعد میں نے سارا حال جلدی جلدی بیان کر دیا۔ جس کے بعد اس بزرگ نے کچھ پڑھنا شروع کر دیا جیسے جیسے وہ پڑھتے جاتے تھے میرے سر اور کندھوں پر وزن بڑھتا جاتا تھا۔ اچانک کوئی چیز مجھ سے الگ ہو کر دیوار میں سما گئی اور دیوار پر ایک سایہ نظر آنے لگا۔ مگر مجھے لگ رہا تھاکہ وہ بہت غضب ناک ہے اس وقت۔

بزرگ نے اسکو کہا کہ کیوں اس لڑکی کا پریشان کر رہی ہو۔ سایہ سے آواز آئی کہ میں اس کو پسند کرتا ہوں تم جتنا علم رکھتے ہو۔ اس سے زیادہ علم میرے پاس ہے میرے راستے میں مت آنا ورنہ یہ جو تم نے سوانگ رچایا ہوا ہے۔ ایک منٹ میں ختم کر دوں گا اور تمہیں ننگا کرکے سارے گاوں کے سامنے کھڑا کر دوں گا۔ اور جو جو تم اس گاوں کی عورتوں کے ساتھ کر چکے ہو سب کو بتا دوں گا۔

بہن نے بھائی کو قتل کروا دیا 

اتنا سننا تھا کہ وہ بزرگ گبھرا گیا اور اس سے معافی مانگنے لگا۔ میرے دوست نے جب یہ سب سنا تو اس نے اس بزرگ کو گریبان سے پکڑ لیا۔ اور دو تین تھپڑ مارے مگر میں نے کہا کہ چھوڑو چلو ہم چلتے ہیں۔ جیسے ہی ہم باہر نکلنے لگے سایہ نے کہا میں اب تمہیں نہیں چھوڑوں گا جاو جہاں مرضی چلی جاو۔ ہر ہفتہ کے دو دن میرے ہوں گے۔ میں آیا کروں گا خوب سج سنور کے رہا کرو میرے لیے۔ میرا خوف سے برا حال تھا۔ میں بے ہوش ہونے کے قریب تھی میرے دوست نے مجھے پکڑا اور باہر گاڑی تک لایا۔ 

گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے دوست سے کہا مجھے لاہور میری والدہ کے پاس چھوڑ آو۔ دوست بھی پریشان ہوگیا تھا اسے نے بھی سوچا اس وقت یہی بہتر ہے کہ مجھے میری والدہ کے پاس چھوڑ آئے۔ خیر گھر سے کپڑوں کا بیگ لیا اور لاہور کی طرف نکل پڑے۔ میں نے اپنی والدہ کو فون کیا اور پوچھا کہ وہ کہاں ہیں۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے میرے لہجے سے ہی وہ سمجھ گئی کہ میں پریشان ہوں۔ والدہ نے بتایا کہ وہ وہاں ہی ہیں اپنی بہن کے گھر۔ میں نے دوست کو ایڈریس بتایا اور اس نے مجھے مطلوبہ جگہ ڈراپ کر دیا۔  میں نے اپنی والدہ کو سب بتایا اور انہوں نے اپنی بہن کو  ۔ سب پریشان ہوگئے۔ 

خالہ کی ساس نے بتایا کہ یہاں قریب ہی ایک بندہ ہے جو کالا علم کرتاہے مگر جنات کو قابو کرنے کا دعوی کرتاہے۔  

ہم فوراً اسکی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں جاتے ہوئے راستے میں بار بار میرے دماغ میں ایک ہی جملہ گھوم رہا تھا کہ مت جاو وہاں ، مت جاو وہاں۔ مگر میں چلتی رہی۔ دو گلیاں دور اس بندے کا گھر تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ کہیں جانے کے لیے نکل رہا تھا ہمیں دیکھ کر رک گیا۔ اور مسئلہ سننے کے بعد اس نے ہمیں اندر بلا لیا۔ جیسے ہی ہم اندر داخل ہوئے ہمارے پیچھے ہی وہ بھی اندر داخل ہوا جیسے ہی وہ بندہ گھر کے اندر داخل ہوا تو جیسے کسی نے اس کو ہوا میں اچھال دیا ہو۔ اور ہمارے اوپر سے اڑتا ہوا آکر ہمارے سامنے گرا اور اس کا سر پھٹ گیا۔ 

پھر تو جیسے کوئی باقاعدہ اسے مارنے لگا کبھی ایسا لگتا کہ جیسے کوئی لاتیں مار رہا ہو اور کبھی تھپڑ وں کی آواز آنے لگتی۔ ہم فوراً وہاں سے واپس پلیٹیں اور گھر کی طرف ڈور لگا دی۔ لوگ بھی حیرانی سے ہمیں دیکھ رہے تھے کہ ان عورتوں کو کیا ہوا ہے ایسے گلیوں میں بھاگ رہی ہیں۔ ہم نے گھر پہنچ کر ہی سانس لیا۔ گھر پہنچتے ہی میر ی والدہ اور خالہ کی ساس جو کافی ایجڈ تھی مگر وہ بھی ہمارے ساتھ بھاگ کر ہی آئی تھی چارپائی پر گر گئیں۔ خالہ کی بیٹیو ں نے فوراً پانی دیا ہمیں۔

ایک بزرگ اور ایک پرندے کا واقعہ

ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ دیوار پر ایک کالا سیاہ بلا نظر آیا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا موٹا بلا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھیں اللہ اللہ آج بھی سوچتی ہوں تو خوف سے دل کانپنے لگتاہے۔ اتنی سرخ تھیں اور لگتا تھا کہ ان میں آگ جل رہی ہو وہ آنکھیں مجھے اپنی وجود میں گڑتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔ اچانک میرے ذہن میں جیسے الفاظ ٹائپ ہونا شروع ہوگئے کہ میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ میں تمہیں پسند کرتاہوں۔

تم بھی مجھے پسند کرو اور ان بابوں عاملوں کے چکر میں نہ پڑو۔ ان سے زیادہ علم میرے پاس ہے۔ ایک کا حال تم وہاں دیکھ کے آئی ہو اور ایک کا حشر یہاں دیکھ لیا۔ اب بھی نصیحت حاصل نہیں ہوئی تمہیں مجھے تو ایسا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں خو ن نہیں۔ اتنے میں خالہ کی بیٹی نے جوتا مارا جو سیدھا جا کہ اس بلے کی کمر پہ لگا۔ جوتا لگتے ہی اس نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا جیسے ہی اس کی نظریں خالہ کی بیٹی کی نظروں سے ملیں خالہ کی بیٹی نے تڑپنا شروع کر دیا آنکھوں کو پکڑ کر اور اونچی آواز میں رونے لگی۔ میرے ذہن میں پھر ٹائپنگ شروع ہوگئی کہ تمہارے اور میرے درمیان اگر کوئی آیا تو اسے ایسی ہی سزا ملے گی۔ 

میں نے کہاکہ اس کا قصور نہیں ہے وہ نہیں جانتی کہ تم کون ہو اسے معاف کردو۔ اس کا کہا جو سزا دے دی وہ دے دی ہاں اس کی سزا مختصر کردیتاہوں۔ صبح تک یہ ٹھیک ہو جائے گی۔ اتنا  کہہ کر وہ بلا دیوار سے دوسری طرف اتر گیا۔ وہ دن اور آج کا دن ہم کئی عاملوں، بزرگوں کے پاس گئے۔ بہت سے عامل تو اس کی دھمکیوں سے ہی ڈر گئے اورکچھ نے نقصان اٹھایا۔ اس دوران میں لندن بھی واپس گئی وہاں بھی چرچوں میں گئی۔

جن اتارنے والوں سے ملی مگر وہ کسی کے بھی قابو میں نہیں آیا۔ پھر میں اب دو سا ل سے یہاں ہی ہوں اور کئی بزرگوں کے پاس گئی مگر کچھ نہیں بنا۔ اس دوران وہ باقاعدگی سے ہفتے میں دو دن میرے پاس آتاہے۔ مجھے استعمال کرتاہے۔ کئی دفعہ اس نے مجھے نکاح کا کہا مگر میں اس سے نکاح نہیں کرنا چاہتی۔ 

اس کے استعمال کرنے کے بعد میری حالت ایسی ہو جاتی ہے۔ جیسے میں صدیوں کی مریض ہوں۔ اور میرے بدن میں خون بالکل ختم ہو گیا ہو۔ اب میں تھک گئی ہوں۔ میں اب اور اسے برداشت نہیں کر سکتی۔ کسی نے مجھے آپ کے استاد محترم کا بتایا ہم ان کے پاس گئے۔ تو وہ بہت بیمار ہیں۔ پھر ان کے ایک مرید نے کہا کہ ان کا ایک شاگرد ہے آپ اس سے مل لیں۔ وہ سکتا ہے وہ آپ کی کچھ مدد کر سکے۔ پھر اسی کے کہنے پر ہم آپ کے پاس آئے ہیں۔

جب وہ اپنی روداد سنا چکی تو استاد محترم نے اس سے سے کچھ سوالات پوچھنے کے بعد اسے گلے میں ڈالنے کے لیے ایک نقش دیا جو اسی وقت پہنا دیا گیا۔ جیسے ہی نقش پہنایا گیا اس نے بتایا کہ میرا وجود ہلکا ہو گیا ہے۔ استاد محترم نے انہیں دوبارہ ایک ہفتہ بعد آنے کا کہا۔ تین دن بعد کا واقعہ ہے کہ میں اور استاد محترم بیٹھے کسی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ کہ یکایک کمرے میں ٹھنڈک کا احساس بڑھ گیا۔

حضرت عیسیٰؑ اور انکے شاگرد کا واقعہ

میں چونک گیا مگر استاد محترم ویسے ہی بیٹھے رہے اور کہنے لگے مجھے یقین تھا جب تم اس کے پاس نا جا سکو گے تو ضرور میرے پاس ہی آو گے۔ اب بتاو کیا چاہتے ہو۔ استاد محترم کی بات ختم ہوتے ہی دیوار پر ایک سایہ بن گیا جس میں سے آواز آنے لگی کہ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا میں اس لڑکی کو نہیں چھوڑ سکتا۔

 آپ اس سے میرا نکاح کروا دیں مگر مجھے اس سے جدا نا کریں۔ استاد محترم نے کہا سنا ہے تم نے بہت سے عاملوں اور بزرگوں کی بے عزتی کی ہے۔ تو اس نے کہا کہ وہ لوگ اسی قابل تھے لوگوں کو فراڈ سے لوٹتے تھے اگر کسی کے پاس سچ میں تھوڑا بہت ہوتا۔ تو میں اسے ڈرا دھمکا کے چپ کروا دیتا تھا۔ مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ آپ نے صرف ایک نقش سے مجھے مجبور کر دیا ہے۔ خیر بہت سی باتیں ہوئیں مگر وہ لڑکی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھا۔ استاد محترم نے کہا کہ تمہارے پاس دو ہفتے ہیں اپنا زور آزما لو یا سوچ لو اچھی طرح کے کیا کرنا ہے تمہیں اور جاو اب۔ کچھ دن بعد ہی وہ ماں بیٹی بھی آ گئیں۔ اور اپنے ساتھ تحفے اور نذرانے لے کے آئیں۔ 

استاد محترم نے صرف اتنے رکھ لیے جتنے اخراجات آ سکتے تھے باقی سب واپس کر دیا۔ وہ شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتی تھی کہ دس سالوں میں پہلی بار سکون سے سوئی ہوں۔ وہ آیا ضرور مگر دروازے کے سامنے کبھی دیوار پر کبھی چھت پر دھمکیاں دیتا رہا۔ خدا آپ کو سلامت رکھے کہ آپ نے میری زندگی بچا لی۔ انہوں نے استاد محترم کو کہا کہ آپ جتنا پیسہ کہیں ہم دینے کو تیار ہیں بس اس سے ہمیشہ کے لیے پیچھا چھڑوا دیں۔

استاد محترم نے کیا پیسے جتنے چاہیے تھے لے لیے ہیں۔ اب اس سے زیادہ ایک پیسہ بھی نہیں چاہیے اور انشاء اللہ اب وہ ساری زندگی آپ کے قریب نہیں آ سکے گا۔ دو ہفتے بھی نا گزرے تھے کہ وہ پھر آگیا۔ اور معافی مانگنے لگا کہ ایک دفعہ وہ حصار ختم کر دیں میں بس آخری بار اس سے مل لوں پھر چھوڑ دوں گا۔ 

مگر استاد محترم نے کیا کہ نہیں میں سب جانتا ہوں کہ تم کیا کیا خباثتیں کرتے رہے ہو۔ اور اب کیا کرنا چاہتے ہواس لیے میں تمہیں کبھی اجازت نہیں دونگا اس بات کی۔ تمہارے پاس دو ہی راستے ہیں اپنا علم آزماو میرے مقابلے میں یا پھر عزت سے اسے چھوڑ دو۔ جب اس نے دیکھا کہ کوئی حل نہیں ہے اور تو اس نے کہا کہ میں اس شرط پر اسے چھوڑوں گا کہ آپ مجھے اپنے پاس رہنے کی اجازت دے دیں۔ بس یہیں استاد محترم نے غلطی کر دی اور اسے اپنے پاس رہنے کی اجازت دے دی۔ چھ مہینے تک تو وہ بڑی فرمانبردای سے رہا۔ استاد محترم چہل کاف کے عامل تھے اور اسی کا حصار باندھتے تھے۔

 ایک رات وہ دیر تک استاد محترم کے پاس رہا سردیوں کی رات تھی۔ جب استاد محترم نے کہا کہ چلو اب میں وضو کے حصار باندھ لوں تو اس نے کہا کہ اب میرے جیسا جن آپ کا محافظ ہے کسی کی کیا مجال جو آپ کی طرف آئے یہ حصار اب رہنے دیا کریں۔ خیر اس رات تو انہوں نے حصار باندھ لیا مگر پھر اس کے مسلسل اصرار پر ایک دن انہوں نے حصار چھوڑ دیا۔ اسی طرح کوئی پندرہ بیس دن یہ سلسلہ چلا اور اور ایک دن استاد محترم کہیں جا رہے تھے۔ وہ بھی ساتھ ہی تھا کہ اچانک سے اس نے بائیک کا ہینڈل موڑ دیا۔ اور بائیک ایک کار کے ساتھ جا ٹکرائی کافی چوٹیں آئیں ہسپتال لے جایا گیا۔

 جہاں وہ دس دن زندگی موت سے لڑتے رہے اور اسی دوران انہون نے مجھ سے یہ سارے واقعات بیان کیے۔ دس دن بعد ان کا وصال ہو گیا۔ (اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے اپنی جناب میں۔ آمین)۔ مجھے انہوں نے بہت کہا کہ جو کچھ میرے پاس ہے لے لو مجھ سے مگر پتا نہیں کیوں میرے دل میں ڈر بیٹھ گیا۔ اور میں ان سے وقت آخر کچھ بھی حاصل نا کر سکا۔

ڈراؤنی کہانی اردو میں

ان کی تدفین کے وقت میں نے ایک کالے سیاہ بلے کو قبرستان میں پھرتے دیکھا تھا۔ اب بھی لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس قبرستان میں ایک بڑے ساْئز کا کالا بلا اکثر دیکھا ہے۔ پتا نہیں اب وہ کیا کرنے آتا ہے وہاں۔ وہ خاتون اب مستقل پاکستان میں رہتی ہیں اور شادی شدہ ہیں۔ ماشاء اللہ سے بہت عبادت گزار ہیں اور جمعرات استاد محترم کی قبر ہر حاضری دینے ضرور آتی ہیں۔

Horror Stories in Urdu for Reading 

ختم شد۔

Real Horror Stories In Urdu Read Online

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.