محبت کے واقعات اور کہانیاں

محبت کے واقعات اور کہانیاں

محبت کے واقعات اور کہانیاں

رات کی رانی رات گہری ہوتے ہی وہ مخصوص خوشبو چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ اور ساتھ ہی ہلکی ہلکی رونے کی آوازیں بھی جیسے کئی عورتیں مل کر کسی جوان موت پہ بین کررہی ہوں۔ شدید سردی کی وجہ سے گاؤں کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوۓ تھے۔ گاؤں کے لوگوں کے لیے یہ آوازیں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کئی سال ہوگئے تھے وہ یہ دہشت ناک آوازیں سنتے آرہے تھے۔گاؤں کے بزرگوں کا کہنا تھا۔ کہہ یہ آوازیں اور خوشبو اس وقت سے آتی ہیں۔ جب سے وہ انڈیا سے ہجرت کر کے اس گاؤں میں آکر بسے تھے۔ پہلے پہل تو ہرکوئی خوفزدہ ہو جاتا تھا۔

مگر پھر آہستہ آہستہ لوگ اس بات کے عادی ہوگئے۔ آوازیں اور خوشبو گھر کے ایک بوسیدہ مکان سے آتی تھی۔ یہ مکان برسوں سے بند پڑا تھا۔سننے میں آیا تھا۔کہہ تقسیم ہند سے قبل اس گاؤں میں ہندو آباد تھے۔ اسی گاؤں میں راجیش نام کا ایک ہندو بھی رہتا تھا۔ جس کی جانکی نام کی ایک خوبصورت بیٹی تھی۔ دو کمروں پر مشتمل یہ گھر اگرچہ کچا تھا۔ مگر جانکی اسے اتنا صاف ستھرا رکھتی تھی۔کہہ گاؤں کے پکے مکان بھی اس کے سامنے ہیچ لگتے تھے۔ جانکی نے اپنے گھر کو سجانے کے لیے بہت سے پھول بوٹے لگا رکھے تھے۔ محبت کے واقعات اور کہانیاں

جن میں ایک بیل رات کی رانی کی بھی تھی۔ رات کی رانی اسے بہت عزیز تھی۔ رات ہوتے ہی جب اس بیل سے مہک اٹھتی تو پورا گاؤں مہک سا جاتا۔ اکثر اوقات جانکی سردیوں کی راتوں میں بھی رات کی رانی کے پاس دیرتک کھڑی رہتی۔ اور اس کی دلفریب خوشبو کو اپنے اندر اتار کر عجیب سی خوشی محسوس کرتی۔ اس کے ماں باپ کئی بار اسے سمجھا چکے تھے۔کہہ وہ رات کو اس بیل کے قریب نہ جایا کرے۔

کہتے ہیں کہ اس بیل پر سانپ اور جنات عاشق ہوتے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچا دیں۔ نہیں ماتا ایسا کچھ نہیں یہ من گھڑت باتیں ہیں۔ جانکی اپنے ماں باپ کی بات کو ہنسی میں اڑا دیتی۔ ایک رات جانکی پانی پینے کے لیے اٹھی تو گھر میں پھیلی مہک نے اسے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ یہ مہک رات کی رانی کی تھی۔مگر اس کے علاوہ کوئی اور مہک بھی تھی۔ جو جانکی نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سونگھی تھی۔ایسے لگ رہا تھا جیسے دو خوشبوؤں کو آپس میں مکس کر دیا ہو۔ نہ چاہتے ہوۓ بھی اس کے قدم اس طرف اٹھتے چلے گئے۔ محبت کے واقعات اور کہانیاں

یہ کہانی بھی پڑھیں ٹڈا اور گاؤں کے چوہدری کی مزاحیہ کہانی

جہاں رات کی رانی کی بیل کچی دیوار سے ایسے لگی ہوئی تھی۔ جیسے دیوار پہ کوئی سبز چادر سوکھنے کے لیے ڈال رکھی ہو۔ جانکی کے قریب جاتے ہی بیل میں سرسراہٹ سی ہوئی۔ جیسے کوئی چیز سرک کر بیل کے پیچھے گئی ہو۔ جانکی کے بڑھتے قدم رک گئے۔وہ آنکھیں پھاڑے اندھیرے میں بیل کو دیکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ مگر اسے اندھیرے میں ہلکے سے چمکتے دو جگنوؤں کے علاوہ اور کچھ نہیں آیا۔ جگنو پہلے بھی اس پر منڈلاتے رہتے تھے۔ مگر وہ ایک جگہ نہیں ٹکتے تھے۔ جیسے یہ دو جگنو ایک ساتھ ایک جگہ جمے ہوۓ تھے۔ یہ کیاہے۔ اس نے سوچا اور ایک قدم مزید آگے ہوگئی۔

جانکی کے قدم بڑھاتے ہی وہ دونوں جگنو یکدم غائب ہوگئے۔ جانکی ٹھٹھک کر رکی۔ اور آنکھیں پھاڑے اس طرف دیکھنے لگی۔ اچانک سرسراہٹ ایک بار پھر ابھری اور چند سیکنڈ بعد غائب ہوگئی۔سانپ جانکی کے منہ سے نکلا اور وہ بے ساختہ کئی قدم پیچھے ہٹی۔ اس کی نظریں اب بھی بدستور اسی طرف تھی مگر وہاں سواۓ بیل کے اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔جانکی چند پل وہیں کھڑی رہی اور پھر واپس کمرے میں آکر بستر پہ لیٹ گئی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں معمول سے کہیں تیز تھیں۔ ماتا پتا ٹھیک کہتے تھے۔ رات کی رانی پہ خوشبو کی وجہ سےجن اور سانپ آتے ہیں۔ مگر مجھے ہی وشواس نہیں ہوتا تھا۔جانکی نے سوچا اور کروٹ بدل کر سونے کی کوشش کی مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

وہ سوچ رہی تھی۔کہہ اگر انجانے میں وہ پہلے کی طرح اس بیل کی قریب چلی جاتی اور سانپ اسے کاٹ لیتا تو کیا ہوتا۔بہت دیر تک اسے ایسے ہی خیال ستاتے رہے پھر کسی وقت اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح وہ دیر سے اٹھی تھی۔آنکھ کھلتے ہی اس کے ذہن میں رات والا واقعہ گھوم گیا۔وہ چارپائی سے اتری اور منہ ہاتھ دھو کر سیدھی اس بیل کے پاس گئی تھی۔بیل سے کچھ دور کھڑی ہوکر اس نے گہری نظروں سے سانپ کے نشانے کھوجنے کی کوشش کی۔ مگر زمین کچی ہونے کے باوجود اسے ایسا کوئی نشان نہیں ملا۔ جس سے یہ پتہ چلتا کہ یہاں سے کوئی سانپ رینگ کر گیا ہو۔کچھ دیر وہاں کھڑی وہ ادھر ادھر دیکھتی رہی اور پھر مایوس ہوکر واپس پلٹ گئی۔ محبت کے واقعات اور کہانیاں

شاید میرا وہم ہو۔ جانکی نے سوچا۔ مگر دماغ یہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ جانکی نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی۔ کہہ رات اس نے یہاں کسی سانپ کی موجودگی محسوس کی تھی۔ کیونکہ اگر اس کے ماں باپ کو یہ بات پتہ چل جاتی تو وہ جانکی کی اس پسندیدہ بیل کو اکھاڑ کر پھینک دیتے۔ جانکی یہ بات اچھی طرح جانتی تھی۔ اس لیے اس نے اپنے ماں باپ کو کچھ بھی بتانے سے گریز کیا تھا۔ پھر کئی دن گزر گئے جانکی کبھی بھی رات کو اس طرف نہیں گئی۔جانکی کی آنکھ اچانک ہی کھلی تھی۔ اسے لگا جیسے کوئی دھیرے دھیرے اس کا نام پکار رہا ہے۔ اس نے خوفزدہ ہوکر ادھر ادھر دیکھا مگر آس پاس کچھ بھی نہیں تھا۔

جانکی نے اپنا وہم سمجھ کر منہ سر اچھی طرح لپیٹا اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔ جانکی سرگوشی نما آواز ابھری۔ میرا وہم ہے جانکی نے خود کو تسلی دی اور کروٹ بدل لی۔ جانکی سرگوشی دوبارہ ابھری۔ جانکی اٹھ کر بیٹھ گئی۔اس کے ماں باپ دوسرے کمرے میں لیٹے ہوۓ تھے۔ اس کمرے میں جانکی اکیلی سوتی تھی۔ جانکی کی نظر بے اختیار دروازے کی طرف اٹھی مگر کمرے کا دروازہ بند تھا۔ کمرے کے ایک کونے سے سرگوشی نما آواز ابھری۔ جانکی اچھل پڑی بلا شک وشبہ اسی کا نام پکارا گیا تھا۔

کک کون ہے جانکی نے اس طرف دیکھتے ہوۓ بمشکل پوچھا۔ اندھیرے میں اسے دو جگنو چمکتے نظر آۓ۔ننھے ننھے سرخ انگاروں جیسے ویسے ہی جگنو اس نے کچھ دن پہلے رات کی رانی کی بیل میں دیکھے تھے جانکی کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔وہ آنکھیں پھاڑے اسی طرف دیکھے جارہی تھی۔ اسے یہ بھی خیال نہیں آیا تھا۔ کہہ وہ چیخ کر اپنے ماں باپ کوہی بلا لیتی۔ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤنگا۔ کمرے کے کونے سے آواز آئی۔ کک کون ہو تم۔ جانکی کواس کے الفاظ سے قدرے حوصلہ ہوا۔

اس کی آنکھیں اب اسی طرف لگی ہوئی تھیں۔ جہاں اندھیرے میں بس دو جگنو ہی نظر آرہے تھے۔ آواز اسی طرف سے آرہی تھی مگر بولنے والا نظر نہیں آرہا تھا۔ میرا نام شیث ہے۔ سرگوشی میں کہاگیا۔ مجھے اپنا دوست سمجھو ساتھ ہی ایک بار پھر حوصلہ دیاگیا۔جانکی کچھ نہیں بولی وہ خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی ہوئی تھی۔ اسی لمحے اس کونے سے سرراہٹ سی ابھری اور جانکی سے کچھ دور آ کررک گئی۔ خوف کے مارے جانکی کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔

بہن نے بھائی کو قتل کروا دیا

ایک طویل سیاہ سانپ اپنا آدھا دھڑ اٹھاۓ جانکی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اندھیرے میں اس کی چمکتی آنکھیں دو جگنوؤں کی طرح لگ رہی تھی۔ جانکی کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ سانپ ایک خوبصورت نوجوان میں تبدیل ہوگیا۔ کمرہ ایک عجیب سی دلکش مہک سے بھرگیا۔ایسی مہک جانکی نے اس رات بھی محسوس کی تھی۔ جس رات اسے بیل کے پاس سانپ کی موجودگی کا شک ہوا تھا۔ جانکی کو جیسے سکتہ ہو گیا تھا۔ وہ منہ کھولے بے یقینی سے اس کو دیکھے جارہی تھی۔ میرا نام شیث ہے۔ نوجوان نے مسکرا کر اپنا نام دوبارہ بتایا۔ محبت کے واقعات اور کہانیاں

میں جنوں کے ایک مسلمان قبیلے سے ہوں۔ خوشبو ہمیں بہت پسند ہے اور اسی وجہ سے میں آج یہاں ہوں۔ آپ کو نہیں پتہ میں ہرروز رات کوآپ کے گھر آتا ہوں۔ پتہ ہے کیوں شیث نے جانکی سے پوچھا۔ اور پھر اس کی طرف سے کوئی جواب نہ ملنے پر خود ہی بتانے لگا۔ ایک رات میں یہاں سے گزر رہا تھا کہ مجھے بہت اچھی خوشبو آئی۔ اور میں اسے کے ماخذ کی تلاش میں آپ کے گھر تک پہنچ گیا۔ تب میں نے آپ کے گھر میں وہ بوٹی دیکھی جس سے خوشبو نکل کر پورے گاؤں میں پھیل رہی تھی۔

شیث نے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا ۔ جانکی ابھی بھی کچھ نہیں بولی۔ آپ کو مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤنگا۔ آپ کو کئی بار رات کواس بوٹی کے پاس دیکھا ہے۔ سمجھ گیا آپ کو بھی وہ بوٹی پسند ہے جس سے خوشبو نکلتی ہے ۔پھر ایک رات آپ ڈر گئی۔ شاید آپ نے مجھے دیکھ لیاتھا۔ اس کے بعد آپ کبھی اس بوٹی کے پاس نہیں گئی۔ مجھے افسوس ہوا کہ میری وجہ سے آپ ڈر گئی ہیں تو آج یہاں آگیا۔ شیث نے مسکرا کر کہا تو پہلی بار جانکی کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ جو بھی ہے جانکی کواس سے کوئی خطرہ نہیں ۔

میں جانکی ہوں۔جانکی نے آہستہ سے کہا۔ جانتا ہوں شیث نے سرگوشی کی۔آپ بے فکر ہوکر خوشبو والی بوٹی کے پاس آجایا کریں۔میرے سوا وہاں اور کوئی نہیں ہوتا۔ شیث نے جانکی کو دیکھتے ہوۓ دھیرے سے کہا تو جانکی مسکرا دی۔ ٹھیک ہے میں آجایا کرو نگی۔ دوسری مخلوق سہی مگر اسے یہ خوبصورت نوجوان اچھا لگا تھا۔ ٹھیک ہے اب آپ سوجاؤ میں جاتا ہوں۔ کل آؤنگا۔ شیث نے جانکی سے کہا اور اس کے دیکھتے ہی بند دروازے سے پار ہو گیا۔

جانکی دیر تک یونہی بیٹھی اسی کے بارے میں سوچتی رہی۔جانکی کا دل کررہاتھا کہ شیث اس سے اسی طرح باتیں کرتا رہتا۔ مگر جانکی اسے یہ بات نہیں کہ سکی تھی۔وہ جاچکا تھا۔جانکی نے اٹھ کر کر دروازہ کھولا۔ سردی اور خوشبو نے اس کا استقبال کیا تھا۔ وہ کچھ دیر یونہی آنکھیں بند کیے کھڑی رہی۔ اور پھر دروازہ بند کرکے چارپائی پہ آکے لیٹ گئی۔ اسے آنے والی رات کا انتظار تھا۔ اس کے بعد جانکی کا یہ معمول بن گیا۔ رات گہری ہوتے ہی وہ اس بیل کے پاس پہنچ جاتی اور پھر صبح تک دونوں باتیں کرتے رہتے۔ شیث اور جانکی دونوں یہ بات جانتے تھے۔

کہہ آگ اور مٹی کا ملاپ ناممکن ہے۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے کو فقط اپنا دوست اور غمگسار ہی سمجھتے تھے۔ان کی دوستی کو ایک سال گزر گیا۔ جانکی نے کئی بار اپنے تجسس سے مجبور ہوکر شیث سے پوچھا تھا۔ کہہ وہ مسلمان کب ہوا۔ اور کیوں ہوا۔ شیث نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہی پیدا ہوا تھا۔ اس کے ماں باپ بھی مسلمان قبیلے سے تھے۔ البتہ اس کے پڑ دادا نے ایک مسلمان بزرگ سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا تھا۔ جانکی یہ سن کر حیران ہوئی تھی۔کہہ ایک جن نے کسی مسلمان انسان سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا تھا۔ شیث نے اسے بتایا تھا کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کیا ہیں۔

جانکی نے آج تک اتنی پیاری باتیں نہیں سنی تھیں۔اسے تو بس یہی بتایا گیا تھا۔ کہہ مسلمان وہ بھٹکے ہوۓ انسان ہیں جو بھگوانوں کونہیں مانتے اور مرنے کے بعد وہ آگ میں جلیں گے۔ جبکہ شیث نے اسے جو کچھ بتایا اس سے لگ رہا تھا۔ کہہ بھٹکے ہوۓ مسلمان نہیں بلکہ دوسرے لوگ ہیں۔ جو اپنے بنانے والے کوبھول کر اپنے الگ الگ خدا بناۓ بیٹھے ہیں۔ شیث کا انداز اور اس کی ہر بات جانکی کے دل کو چھو لیتی تھی۔ وہ کئی ماہ سوچتی رہی اور پھر ایک رات اس نے شیث سے کہاکہ وہ اسے بھی مسلمان کردے۔ شیث یہ سن کر حیران اور خوش ہوا تھا۔اس نے جانکی سے کہا کہ وہ جیسے کہتا ہے وہی دہراتی رہے۔ شیث نے اسے کلمہ پڑھایا۔

اور اس کا ترجمہ جانکی آہستہ آہستہ لفظ ادا کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ کلمہ پڑھتے ہی وہ مسکرائی اور پھر نہ جانے اسے کیا ہوا۔کہہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ شیث اسے دیکھ کر مسکراتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ غم کے نہیں خوشی کے آنسو ہیں۔ زندگی کے مقصد اور منزل کو پانے کی خوشی ۔ لگاتار کئی راتوں کی کوشش کے بعد جانکی کلمہ سیکھ گئی تھی۔ شیث نے اس کا نام رانی رکھا تھا۔ایک دوبار جانکی کے ماں باپ نے اسے رات کو بیل کے پاس کھڑی ہوکر باتیں کرتے دیکھا۔ مگر انہیں شیث نظر نہیں آتا تھا۔ اس لیے وہ سمجھتے کہ ان کی بیٹی بیل یا پودوں سے باتیں کررہی ہے۔ ان کے پوچھنے پر جانکی بھی یہی کہتی کہ میں تو رات کی رانی سے بات کررہی ہوں۔ محبت کے واقعات اور کہانیاں

بھلا پودے بھی کسی سے بات کرتے ہیں۔ وہ اپنی بیٹی کی اس نادانی پر ہنس پڑتے۔ جانکی خوش تھی کہ اس کا راز کسی کو بھی معلوم نہیں ہوسکا۔ مگر یہ اس کی بھول تھی۔ایک شخص ایسا بھی تھا جس کو معلوم ہوگیا تھا۔ کہہ جانکی روز رات کو کسی سے باتیں کرتی ہے۔ البتہ وہ یہ نہیں جان پایا تھا کہ جانکی کس سے بات کرتی ہے۔ یہ جانکی کا پڑوسی ارجن تھا۔ ایک رات وہ کسی کام سے اپنے صحن میں آیا تو اسے جانکی کے گھر سے کسی کی سرگوشیاں سنائی دیں۔ غور کرنے پر ارجن کو معلوم ہوگیا کہ یہ آواز جانکی کی ہی ہے۔ اس نے دیوار سے زرا سا سر نکال کر جانکی کے گھر جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کہہ آدھی رات کو جانکی رات کی رانی کے پاس کھڑی ہو کر کسی سے باتیں کررہی ہے۔

اردو مزاحیہ کہانی

حیرت کی بات یہ تھی کہ ارجن کو دوسرا وہاں ایسا کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ جس سے جانکی باتیں کررہی ہو۔یا تو یہ لڑکی پاگل ہوگئی ہے یا پھر پودوں سے بات کررہی ہے۔ ارجن نے سوچا۔ پاگل ہی ہے جو رات کے اس پہر پودوں سے بات کررہی ہے۔ ارجن مسکرایا اور واپس کمرے میں آگیا۔ ارجن نے جانکی کے باپ سے بھی یہ بات کی تھی کہ اس کی لڑکی رات کو پودوں سے باتیں کرتی ہے۔مگر اسے یہ جان کر مزید حیرانی ہوئی تھی۔ کہہ جانکی کے ماں باپ یہ بات جانتے ہیں۔

دو چار راتیں گزر گئی ارجن بھول گیا کہ اس نے جانکی کو باتیں کرتے دیکھاتھا۔ ایک رات وہ لیٹ گھر آیا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اسے وہ بات یاد آگئی۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے جانکی کے گھر میں جھانکا۔ اور یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ جانکی آج بھی اسی رات کی طرح وہیں کھڑی کسی سے باتیں کررہی ہے۔ ارجن کو حیرانی اس بات پر تھی۔

کہہ جانکی اٹک اٹک کر کوئی اور ہی زبان بول رہی تھی۔جیسے وہ کسی سے سبق پڑھ رہی ہو۔ اگلی رات ارجن جانکی کے گھر کی باہر والی دیوار کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔یہ وہی دیوار تھی جس پر رات کی رانی پھیلی ہوئی تھی۔ رات گہری ہوتے ہی رات کی رانی کی خوشبو کے ساتھ وہاں ایک اور دلکش مہک پھیل گئی۔ عین اسی لمحے اسے اندر گھر سے کسی کے قدموں کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔ جو اس دیوار کے پاس آ کر رک گئی تھی۔اسلام علیکم ارجن اچھی طرح پہچانتا تھا کہ یہ آواز بلاشبہ جانکی کی ہی تھی۔ ارجن کو اس بات حیرت تھی کہ جانکی نے مسلمانوں کی طرح سلام کیوں اور کس کو کیا تھا۔ارجن کو سلام کا جواب سنائی نہیں دیا تھا۔ کچھ دیر بعد اسے جانکی کی یکطرفہ آواز آتی رہی۔

کبھی کبھی وہ ہنس پڑتی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ ارجن کو دوسری کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے جانکی دیوار سے باتیں کررہی ہو۔ وہ اسی شش وپنج میں تھا کہ کیا کرے۔ عین اسی لمحے اسے جانکی کی آواز آئی اور اس بار جو کچھ جانکی کہہ رہی تھی۔ اسے سن کر ارجن پہ جیسے بجلی آہ گری تھی۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ مسلمانوں کا کلمہ ہے۔

اس نے کئی بار مسلمانوں کو یہ پڑھتے سنا تھا۔اور جہاں تک ارجن نے سنا تھا اس کے مطابق یہ پڑھنے والے کا دھرم بھر شٹ ہو جاتا تھا۔ یعنی وہ ہندو نہیں رہتا تھا۔ جانکی کلمہ پڑھ رہی ہے۔ارجن سے سوچا۔ تو کیا وہ مسلمان ہوگئی۔ مگر کیوں اور کیسے۔ اگلے دن یہ خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی تھی۔کہہ راجیش کی بیٹی جانکی مسلمان ہوگئی ہے۔ جو بھی ہندو سنتا کانوں کو ہاتھ لگاتا۔

جانکی کے ماں باپ تک بھی یہ بات پہنچ گئی تھی۔ اس کے ماں باپ سیدھے سادھے انسان تھے۔ لوگوں کی باتوں سے انہیں لگتا تھا کہ ان کی اکلوتی بیٹی اب نرک میں جلے گی۔ اور وہ یہ ہرگز برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے جانکی سے کہا کہ وہ تو کبھی گھر سے بھی نہیں نکلی پھر وہ کیسے مسلمان ہوگئی۔لوگ جھوٹ بول رہے ہیں نا۔ مگر جانکی کے جواب سے دم بخود رہ گئے۔ نہیں ماتا پتا یہ سچ ہے۔ جانکی نے عزم سے کہا۔

پھر انہیں ساری بات بتا دی۔ شیث کے بارے میں جان کر وہ خوفزدہ ہوگئے۔ انہیں لگا کہ ان کی بھولی بھالی بیٹی پر آسیب ہے۔ جس نے اسے مسلمان ہونے پرمجبور کیاہے۔مگر جانکی نے انہیں یقین دلادیا کہ اس پر کوئی آسیب نہیں ہے۔ اور وہ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے۔ اللہﷻ جب کسی کو چن لیتا ہے تو انسانوں سمیت اپنی جس مخلوق سے چاہے اسے ہدایت بخش دے۔

چند دن بعد جانکی کے سمجھانے اور کوششوں سے اس کے ماں باپ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ البتہ انہوں نے یہ بات چھپا کرر کھی تھی۔ ان کا ارداہ تھا کہ جلد یہاں سے کسی مسلمانوں کے گاؤں میں چلیں جائینگے۔ جہاں انہیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ورنہ وہ جانتے تھے کہ یہاں لوگ ان کو اب چین سے نہیں رہنے دینگے۔ چند دن بعد ایک رات جانکی اور اس کے ماں باپ کھانا کھا کے جیسے ہی اپنے کمروں میں گئے۔ دیوار پھلانگ کر سات نقاب پوش ان گھر میں آگئے ۔ تین صحن میں پہرہ دیتے رہے باقی جانکی کے کمرے میں چلے گئے۔

ان کے ہاتھوں میں موجود ہتھیار ان کے خطرناک ارادوں کا پتہ دے رہے تھے۔جانکی ابھی لیٹی ہی تھی کہ اسے باہر آہٹ سنائی دی۔ شیث آج اتنی جلدی آگیا۔ اس نے مسکرا کر سوچا۔ اور جلدی سے چارپائی سے اتر کر کمرے کے دروازے کی طرف بڑھی۔ اسی لمحے کمرے میں کئی نقاب پوش داخل ہوۓ اور جانکی کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اسے دبوچ لیا۔

ایک نے اپنا ہاتھ سختی سے جانکی کے منہ پررکھ دیا۔ ان میں سے ایک نے اپنے منہ سے نقاب اتارا تو جانکی چونک پڑی۔یہ اس کا پڑوسی ارجن تھا۔ ارجن نے بنا کچھ کہے برچھی جانکی کے پیٹ میں گھونپ دی۔ منہ پہ ہاتھ ہونے کی وجہ سے چیخ جانکی کے منہ میں ہی گھٹ کررہ گئی۔ اس نے دو تین وار اور کیے اور پھر اسے چھوڑ کر خاموشی سے نکل گئے۔ دوسرے کمرے موجود جانکی کے ماں باپ کو علم ہی نہ ہوسکا۔کہہ ان کی اکلوتی بیٹی کسی کے تعصب کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ جانکی بے ہوش ہوگئی تھی۔ محبت کے واقعات اور کہانیاں

اس کے جسم سے نکلنے والا خون زمین کوپاک کررہاتھا۔ شیث اپنے وقت پہ آیا تھا۔ جانکی کے گھر میں داخل ہوتے ہی اسے کسی انہونی کا احساس ہوا۔ اس کی حساس ناک نے ہوا میں خون کی مہک محسوس کرلی تھی۔ وہ سیدھا جانکی کے کمرے کی طرف گیا۔ اندر کا منظر اس کو لرزا دینے کے لیے کافی تھا۔

رانی شیث اپنی پوری قوت سے چلایا۔ اور تیزی سے جانکی کے قریب گیا۔ مگر اسے بہت دیر ہوچکی تھی۔ وہ حلق پھاڑ کر رویا اس کی آواز سواۓ اس کے اور کوئی نہیں سن سکتاتھا۔ شیث نے ہی جانکی کے ماں باپ کو جگایا تھا۔ پھر وہ وہاں سے چلاگیا۔وہاں کا منظر اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ اگلے دن صبح اس گاؤں میں میلہ سا لگا ہوا تھا۔ دور اور قریب کے مسلمان جانکی کا جنازہ پڑھنے آۓ تھے۔

سب کا یہی کہنا تھا کہ صبح انہوں نے سفید کپڑوں میں کچھ لوگوں کو قافلے کی صورت اس طرف آتے دیکھا۔ انہوں نے ہی بتایا کہ فلاں جگہ ایک لڑکی فوت ہوگئی ہے۔ جو کوئی بھی اس کا جنازہ پڑھے گا وہ خوش قسمت ہوگا۔ ہم بھی سعادت سمجھ کر چلے آۓ۔ جانکی کو اس کے گھر میں ہی اس کی پسندیدہ بیل رات کی رانی کے قریب دفنا دیا گیا۔

اسی رات گاؤں کے سات گھروں سے عورتوں کے بین کرنے کی آوازیں آئیں ۔ ان میں ایک گھر ارجن کا بھی تھا۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کسی نے ارجن سمیت گاؤں کے سات آدمیوں کو زندہ جلادیا ہے۔ یہ وہ سب لوگ تھے۔ جو اس رات جانکی کے گھر گھسے تھے۔ اور ان کو مارنے والا کوئی اور نہیں جانکی نہیں۔ رانی کا دوست اور رات کی رانی کا دوست شیث تھا۔پھر ہر رات یہ ہونے لگا کہ رات جیسے ہی گہری ہوتی جانکی کے گھر سے رات کی رانی کی خوشبو چاروں طرف پھیل جاتی اور ساتھ میں بین کی آوازیں بھی۔

کچھ عرصے بعد رات کی رانی کی بیل سوکھ گئی ۔مگر خوشبو پھر بھی آتی رہی۔کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ خوشبو رانی یعنی جانکی کی قبر سے آتی تھی۔ اور بین کی آوازیں ان لوگوں کی روحوں کی ہیں جنہوں نے جانکی کو مارا تھا۔

محبت کے واقعات اور کہانیاں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.