مختصر اردو کہانیاں

مختصر اردو کہانیاں

مختصر اردو کہانیاں

مختصر اردو کہانیاں

گاڑی پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی۔ اچانک بجلی چمکی بس کے قریب آئی اور واپس چلی گئی۔ بس آگے بڑھتی رہی آدھ گھنٹے بعد بجلی دوبارہ آئی۔ بس کے پچھلے حصے کی طرف لپکی لیکن واپس چلی گئی بس آگے بڑھتی رہی۔ بجلی ایک بار پھر آئی وہ اس بار دائیں سائیڈ پر حملہ آور ہوئی۔ لیکن تیسری بار بھی واپس لوٹ گئی۔ ڈرائیور سمجھ دار تھا۔ اس نے گاڑی روکی اور اونچی آواز میں بولا۔ بھائیو بس میں کوئی گناہگار سوار ہے۔

یہ بجلی اسے تلاش کر رہی ہے۔ ہم نے اگر اسے نہ اتارا تو ہم سب مارے جائیں گے۔ بس میں سراسیمگی پھیل گئی۔ اور تمام مسافر ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے۔ ڈرائیور نے مشورہ دیا سامنے پہاڑ کے نیچے درخت ہے۔ ہم تمام ایک ایک کر کے اترتے ہیں۔ اور درخت کے نیچے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہم میں سے جو گناہ گار ہو گا بجلی اس پر گر جائے گی۔ اور باقی لوگ بچ جائیں گے۔

 یہ تجویز قابل عمل تھی۔ تمام مسافروں نے اتفاق کیا۔ ڈرائیور سب سے پہلے اترا اور دوڑ کر درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ بجلی آسمان پر چمکتی رہی لیکن وہ ڈرائیور کی طرف نہیں آئی۔ وہ بس میں واپس چلا گیا۔ دوسرا مسافر اترا اور درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ بجلی نے اس کی طرف بھی توجہ نہیں دی۔ تیسرا مسافر بھی صاف بچ گیا یوں مسافر آتے رہے۔ درخت کے نیچے کھڑے ہوتے رہے۔ اور واپس جاتے رہے یہاں تک کہ صرف ایک مسافر بچ گیا۔

یہ گندہ مجہول سا مسافر تھا۔ کنڈیکٹر نے اسے ترس کھا کر بس میں سوار کر لیا تھا۔ مسافروں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ لوگوں کا کہنا تھا۔ ہم تمہاری وجہ سے موت کے منہ پر بیٹھے ہیں۔ تم فوراً بس سے اتر جاؤ۔ وہ اس سے ان گناہوں کی تفصیل بھی پوچھ رہے تھے۔ جن کی وجہ سے ایک اذیت ناک موت اس کی منتظر تھی۔ وہ مسافر اترنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ لیکن لوگ اسے ہر قیمت پر بس سے اتارنا چاہتے تھے۔ 

مسافروں نے پہلے اسے برا بھلا کہہ کر اترنے کا حکم دیا۔ پھر اسے پیار سے سمجھایا۔ اور آخر میں اسے گھسیٹ کر اتارنے لگے۔ وہ کبھی کسی سیٹ کی پشت پکڑ لیتا تھا۔ کبھی کسی راڈ کے ساتھ لپٹ جاتا تھا۔ اور کبھی دروازے کو جپھا مار لیتا تھا۔ لیکن لوگ باز نہ آئے۔ انھوں نے اسے زبردستی گھسیٹ کر اتار دیا۔ ڈرائیور نے بس چلا دی۔ بس جوں ہی گناہ گار سے چند میٹر آگے گئی۔ دھاڑ کی آواز آئی۔ بجلی بس پر گری اور تمام مسافر چند لمحوں میں جل کر بھسم ہو گئے۔ وہ گناہگار مسافر دو گھنٹوں سے مسافروں کی جان بچا رہا تھا۔

اس پوری کہانی کا مقصد یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی کو کسی چیز کا قصوروار گردان رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ ہو سکتا ہے اس سبب کے قصوروار ہم خود ہوں۔

اور دوسری طرف ہم کسی اور کی وجہ سے پریشانی اور مصیبتوں سے بچتے آرہے ہوتے ہیں جسکا ہمیں علم نہیں ہوتا۔

اسلام آباد کی تاریخ اردو میں

پادری کا بیٹا کیسے مسلمان ہوا اردو اسلامی کہانی

ایک جج صاحبہ ایک مجرم کو سزا سنانے کا واقعہ

ٹڈا اور گاؤں کے چوہدری کی مزاحیہ کہانی

ایک عالم دین کی درد بھری کہانی

مختصر اردو کہانیاں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.