میرے اندر کا بچّہ اور پنجاب کا علاقہ دٙھنی

Mera Andar ka Bacha aur Punjab ka ilaqa Dhani Urdu Articles

میرے اندر کا بچّہ اور پنجاب کا علاقہ دٙھنی

میرے اندر کا بچّہ

مُلتان چھاؤنی پنجاب کا علاقہ “دٙھنّی” ••• بارانی زمینوں میں علاقے کی اکلوتی پکّی سڑک کے کنارے چند کچّے پکّے گھر، دہقان خاندانوں کی آماجگاہ تھے۔ گُزر بٙسر کھیتی باڑی اور مال مویشیوں پر مُنحصر تھی۔ چند ایک چھوٹی موٹی سرکاری نوکریاں اور فوجی ملازمتیں ہی زندگی کا پہیہ چلاتی تھیں۔ زندگی سورج نکلنے سے بہت پہلے شروع ہوتی اور شفق کے ملگجی بادلوں کے غائب ہونے تک جاری رہتی۔

یہ 80ء کی دہائی کے اوائل کے مناظر ہیں جو چار عشروں کے گزر جانے کے باوجود میرے دل و دماغ پر ایسے تازہ ہے گویا چند گھنٹے قبل کی بات ہو۔ اگرچہ ان 40 سالوں میں بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئیں اور بے پناہ ترقی ہو چکی لیکن ذہن کے پردے پر نقش مناظر دُھندلے نہ پڑ سکے۔ اب بھی موٹروے کے بلکسر انٹرچینج سے نکلتے ساتھ ہی غیر ارادی طور پر گاڑی کا شیشہ نیچے کرنے لگتا ہوں تو گاؤں کی ہوا یوں فراٹے بھرتی لپٹتی محسوس ہوتی ہے جیسے کسی ماں کا کھویا ہوا بچّہ برسوں بعد مِل جائے۔ میں خود کو گاؤں کی ہوا اور مہک کے حوالے کر کے ایسا سکون و کیف پاتا ہوں جیسے شیر خوار بچہ نیند کے مزے لُوٹتا ہے۔ میرے اندر کا بچّہ پھر سے کِھلکھلا اُٹھتا ہے اور یادوں سے پردے ہٹتے چلے جاتے ہیں۔

تب رات ایسی گہری اور پُرسکون ہوا کرتی تھی کہ کسی مویشی کے گلے میں بٙندھی پیتل کی گھنٹی یا میمنے کی آواز سارے گھروں میں برابر سنائی دیتی۔ جاڑے کی گُھپ اندھیری رات میں بھی ستاروں کے جھرمٹ ایک ملکوتی سی جھلملاتی روشنی برقرار رکھتے اور چاندنی راتوں میں تو گویا دن کا گمان ہوتا۔ صبح صادق کے وقت جب کوئی بوڑھا، گائے یا بھینس کا دودھ دوہنے کیلئے برتن میں پہلی دھار مارتا تو اذان سے بہت پہلے ہماری امّاں اور نانی کلمہ پڑھتی بیدار ہوتیں۔ چھوٹی سی کچّی مسجد سے بنا لاؤڈ سپیکر کے نہ صرف اذان کی آواز ہر گھر میں سنائی دیتی بلکہ وضو کرنے والے بوڑھوں کے مٹّی کے کوزے بھی کھنکتے سنائی دیتے۔ فجر کے بعد منہ اندھیرے چرواہوں کے ریوڑ، ہل چلانے والے بیلوں اور دہی کی لسّی بنانے والی مٙدھانی کی آوازیں گویا نئے دن کو خوش آمدید کہتے۔

لڑکے لڑکیاں ایک ہاتھ میں سِپارہ اور دوسرے ہاتھ میں چھوٹے بہن بھائیوں کے ہاتھ تھامے مسجد کی طرف روانہ نظر آتے اور آسمان پر ایک ایک کرکے غائب ہوتے ستاروں کو دیکھتے دیکھتے اُستاد جی کے حضور پہنچ جاتے۔ گرمیوں میں یہ تعلیم مسجد کے اینٹوں والے صحن میں بچھے کھجوری پتّوں کی چٹائیوں پر اور سردیوں میں کچّے حجرے کے گھاس پھوس (سٙتّھر) بِچھے فٙرش پر حاصل ہوتی۔ مخلوط تعلیم (co-education) کے اس ماحول میں قوانین انتہائی سخت تھے۔ استاد جی کی نشست کے دائیں جانب لڑکیاں اور بائیں جانب لڑکے دو قطاروں میں آمنے سامنے اس طرح بیٹھتے کہ استاد جی کی لمبی چھڑی کا ایک ہی وار پوری قطار کو رسید ہو سکے؛ البتہ ہم نے اس چھڑی کا استعمال ہمیشہ لڑکوں کی طرف ہی ہوتے دیکھا۔

بجلی اور گیس جیسی خرافات تو کُجا، پینے کا پانی تک رہٹ والے کنویں سے حاصل کیا جاتا، جہاں صبح اور شام کے وقت عورتوں کا ہجوم اکٹھا رہتا۔ البتہ دن بھر اکثر اس کنویں پر مسافر یا جانور نظر آتے۔ گھروں میں لکڑیوں اور اوپلوں کی آگ کے چولہے، مٹّی کے برتن، لکڑی کی سُوتی چارپائیاں اور کچّے صحن ہوا کرتے تھے۔ صبح مسجد سے واپسی پر دودھ، دہی، تازہ مکھن اور دیسی گندم کے پراٹھوں کا ناشتہ ہمارا منتظر ہوتا۔ سکول روانگی کی تیاری ہوتی اور لہلہاتی فصلوں کے بیچوں بیچ پگڈنڈیوں پر پیدل بچوں کی ٹولیاں نظر آتیں۔ پرانے کپڑے کے بنے تھیلے میں دو قاعدے یا کتابیں، سلیٹ، قلم اور دوات جبکہ ایک ہاتھ میں لکڑی کی تختی جسے چِکنی مٹّی کے پوچے سے خوب تیار کیا ہوتا۔

گھنّے درختوں کی چھاؤں تلے یا کچّے فرش والے برآمدے میں بچھے موٹے ٹاٹ، کمرہ جماعت کہلاتے۔ اساتذہ کیلئے لکڑی کی سادہ سی بغیر گدی والی کرسیاں اور لوازمات میں فقط ایک گدلا سا تختہ سیاہ۔ استاد جی پڑھانے کے ساتھ ساتھ گاہے گاہے راہ گزرتے گاؤں والوں سے حال احوال، مویشیوں کی بیماریوں کے آزمودہ علاج، بارشوں کی پیشگوئیاں اور فصلوں بارے تبادلۂ خیال کرتے رہتے۔ تعلیم کا سارا زور باآواز بلند سبق کی دُہرائی اور پٙکائی پر ہوتا۔ ایک جگہ سائے میں مٹی کے بڑے بڑے تین چار مٹکے دھرے رہتے جہاں طلباء کیلئے پینے کا پانی ہوتا البتہ سارے سکول کیلئے لوہے کا فقط ایک ہی گلاس تھا۔

تفریح (break time) سب بچّے گھروں کا رخ کرتے، مکھن میں چپڑی تندور کی روٹی، لسّی اور اچار کا پرتکلف کھانا کھا کر دوبارہ سکول روانہ ہوتے۔ کھیل کود کے بعد تختی لکھائی اور املا کا دور چلتا۔ چھٹی کے وقت واپسی پر کبھی کبھار ہم میں سے کسی کے پاس اٹھنّی یا روپیہ ہوتا۔ گاؤں کی ایک بُڑھیا نے گھر کی بیٹھک میں چھوٹی سی دُکان کھول رکھی تھی جہاں سے پُھلڑیاں، پتاسے، ریوڑیاں اور کماد کے ٹکڑے وغیرہ دستیاب ہوتے۔ پرانے ٹین کے کنستروں میں مختلف سامانِ خورد و نوش دٙھرا ہوتا۔ لیکن اس معمولی رقم میں بھی اتنی چیز ضرور آ جاتی کہ سب بچّوں کو حصّہ مِل ہی جاتا۔ سکول سے گھر کے راستے کے درمیان رہٹ والا کنواں پڑتا جہاں ہم پانی پیتے اور تختیاں دھو لیا کرتے۔ کھیتوں سے کچے خربوزے کھانا اور جوار کے سبز ٹانڈے توڑ کر چُوسنا بھی نعمتِ غیر مُترقّبہ سمجھی جاتی۔ ہماری مرغوب غذاؤں میں سبز چنے (گھاڑاں)، کچی مونگ پھلی اور باجرے کے سِٹّے بھی شامل تھے۔

ہر پندرہ روز بعد گدھی پر سوار گاؤں کا بوڑھا حجام وارد ہوتا اور ہماری بیٹھک پر ڈیرہ جما لیتا۔ حجامت بنوانا یر بڑے چھوٹے کیلئے فرض ٹھہرتا۔ بوڑھے حجام کا تصوّر ایک خوفناک بلا کی مانند تھا جس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ اس شخص نے ہم سب لڑکوں کے انتہائی بے رحمی سے خٙتنے کئے تھے، اس پر سِتم ظریفی یہ کہ ہم بِلک بِلک کر رو رہے ہوتے اور حجام انتہائی بے شرمی سے مُسکراتے ہوئے مٹھائی کے روڑے چائے کے پیالے میں ڈبو کر نوش فرماتا رہتا۔ دوسری وجہ اُس کا غیر انسانی طریقہِ حجامت تھا۔ حجام چارپائی پر بیٹھتا اور لڑکوں کو زمین پر بٹھا کر اپنے گُھٹنوں میں جٙکڑ لیتا اور اپنے کُند آہنی ہتھیاروں سے وہ حجامت بناتا کہ الامان الحفیظ۔ ہمارے بعد بڑے بزرگوں کی باری آتی۔ وہ حجامت بنانے کے ساتھ ساتھ گاؤں اور اطراف کی ساری خبریں سناتا رہتا اور چائے سُرکتا رہتا۔ یوں بوڑھا حجام شام ڈھلے اپنی گدھی پر سوار ہو کر واپسی کی راہ لیتا۔

شام کا منظر اپنے آپ میں بے پناہ خوبصورتیاں لئے ہوتا۔ چرواہوں کے ریوڑ دُھول اڑاتے دُور سے نظر آتے۔ بوڑھے چرواہے دن بھر جنگل میں ریوڑ چرانے کے دوران بچوں کیلئے بیر اکٹھے کرتے۔ ہمارے لئے بیروں کے چند دانے کسی سرپرائز سے کم نہ ہوتے تھے۔

بارش ہوتی تو مٹّی سے لیپ کی گئی دیواروں اور کچّی گلیوں کی مہکار گویا دنیا کی بیش قیمت خُوشبویات کو مات دیتی۔ کچے چھتّوں پر ٹین کے زٙنگ آلود پٙرنالے گلی میں پانی کا سیلاب لے آتے۔ جہاندیدہ بوڑھیاں ان پرنالوں کے نیچے مٹّی کے گھڑے اور بالٹیاں رکھ کر وہ کیچڑ بھرا پانی محفوظ کر لیتیں۔ بعد میں بارش کے اس پانی سے سٙر دھویا جاتا؛ یہ کسی بیش قیمت شیمپو سے بہتر نتائج دیتا۔ گلیوں میں جابجا پانی کھڑا ہوتا تو ہم بچّے کاغذ کی کشتیوں سے کھیلتے۔

سکول سے گرمیوں کی چُھٹیاں ہوتیں تو سب بچّے مِل کر منہ اندھیرے سکول کا کام کرنے بیٹھ جاتے۔ دیواروں کے سائے سِمٹتے تو گرمی کی شِدّت میں اضافہ ہوتا اور ہم نہا دھو کر دوپہر کا کھانا کھاتے۔ پھر پوری دوپہر صحن میں درختوں کے نیچے کھیلنے کودنے میں گزار دیتے۔ ظہر کی نماز کے بعد چائے اور ساتھ ہی پڑھائی کا دوسرا دور چلتا۔ عصر کے بعد بیٹھک کے سامنے کھیلنے نکل جاتے اور مغرب کی اذان کے بعد گھر لوٹتے۔ تب تک رات کا کھانا تیار ہوتا، صحن میں کُھلے آسمان تلے سونے کیلئے چارپائیاں اور بستر بھی لگ چکے ہوتے۔ مٹی کے تیل سے جلنے والی ایک مٙدھم سی لالٹین اتنی روشنی دیتی کہ کبھی اندھیرا محسوس نہ ہوتا۔ لالٹین کی چمکدار روشنی کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی کہ مغرب سے ذرا پہلے خواتین ان کے شیشے نکال کر چولہے کی راکھ سے خوب رگڑ رگڑ کر صاف کرتیں اور مٹی کا تیل ڈالا جاتا۔ عِشاء کی نماز پر جاتے ہوئے صرف اِکّا دُکّا ضعیف بوڑھوں کے ہاتھ میں لالٹین ہوا کرتی۔

ہمارے گھر میں اس وقت ایک ریڈیو ہوا کرتا جو ایک بہت بڑی عیاشی سمجھا جاتا۔ بعد میں ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی آگیا جسے بیٹھک پر رکھا گیا اور بیٹری کی مدد سے چلایا جاتا۔ ٹی وی کے چلنے کا وقت فقط رات 8 سے 9 بجے ہوتا۔ اس سے پہلے بچّے بوڑھے چارپائیوں پر براجمان ہو جاتے تاکہ پی ٹی وی کے ڈرامے دیکھے جا سکیں۔ سردیوں میں محفل بیٹھک کے کمرے میں جمتی جہاں گھاس پھوس کا فرش (ستّھر) بچھایا خاتا۔ ہم بڑوں سے مختلف باتیں، قِصّے کہانیاں اور سیفُ الملوک و ہیر وارث شاہ کے اشعار سنتے۔ ہماری بیٹھک پر اکثر و بیشتر مختلف پھیری کرنے والے آکر رات گزارتے۔ ہم لوگ ان کیلئے کھانے اور بستر کا انتظام کرتے۔ رات کی محفل میں وہ اجنبی پھیری والے اشخاص یوں گھل مل جاتے گویا یہیں کے رہنے والے ہوں۔

اطراف کے گاؤں میں میلے ٹھیلے اور بیلوں کے جلسے منعقد ہوتے تو ہم بچے اپنے بوڑھے چچا، ماموں کیساتھ گدھی پر سوا ہو کر جاتے ہوئے پھولے نہ سماتے۔ وہاں ہمارے لئے سب سے بڑی کشش جلیبی اور شربت ہوا کرتا تھا۔ لوگ مٹی کے گھڑے کا پانی پیتے اور پیدل چلا کرتے جس سے اطراف کے کھیتوں کے بیچوں بیچ پگڈنڈیوں پر کبھی گھاس اُگی ہوئی نہ دیکھی۔ اطراف میں کاہی کے سفید پھول بے بُو ہونے کے باوجود بہت بٙھلے لگتے۔ بہار میں سرسوں کے پیلے پھول گویا پورے گاؤں کی سجاوٹ کے اہتمام کو اُگ آتے۔

میں ساتویں جماعت میں تھا تو گاؤں میں بجلی آگئی اور ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ بلب اور پنکھے کسی انمول خزانے سے کم نہ سمجھے جاتے۔

‏بقولِ شاعر:

زادِ سٙفر میں گاؤں کی یادوں کو باندھ کر

شہروں کو لٙوٹتی ہوئی آنکھوں کی خٙیر ہو

از قلم

کرنل شاہد عباسی

جولائی 2021

Comments are closed.