ہم کیسی قوم ہیں ١٩٩٤ – ٩٥ میں جب پاکستانی فوج

Ham Kasi Qoum Hain interesting urdu articles stories

ہم کیسی قوم ہیں ١٩٩٤ – ٩٥ میں جب پاکستانی فوج

١٩٩٤٥ میں جب پاکستانی فوج یوناٸیٹڈ نیشن پروٹیکشن فورس کے جھنڈے تلے بوسنیا ہرزیگوینا پہنچی تو پورا ملک جنگ کی تباہ کاریوں کا مونہہ بولتا ثبوت تھا ۔ انفراسٹرکچر تباہ ۔ کاروبار بند ۔ تعلیمی ادارے ختم ۔ ملکی سرحدوں پر آمد و رفت پر پابندی اور بےروزگاری عروج پر تھی ۔ میں ویسچا کیمپ میں پاک بٹالین کا فیلڈ ہاسپیٹل کمانڈ کر رہا تھا ۔ چونکہ ہاسپیٹل میں بوسنین فیملیز کا علاج بھی ہوتا تھا اس لیے ہم نے مقامی نرسز اور میڈیکل کی طالبات کو بھرتی کرلیا ۔

دوچار لڑکیاں ایسی بھی تھیں جو ترجمانی کے فراٸض انجام دیتیں اور ہمارے ڈاکٹرز کا کام آسان ہو جاتا ۔ ہمارے کام سے متاثر ہوکر انٹرنیشنل این جی اوز ہمیں کھانے پینے کا سامان ۔ دواٸیاں اور کپڑے بھی دے جاتیں کہ ہم واقعی ضرورت مندوں تک یہ سب پہنچا رہے تھے ۔ ہمارے بوسنین اسٹاف کی تنخواہ بہت کم تھی اس لیے ہم انکو راشن اور دوسری چیزیں بھی مہیا کر دیتے تاکہ انکا بھی بہتر گزارہ ہو سکے ۔ بوسنین لوگ مجھے سر کی بجاٸے چیف کہہ کر پکارتے تھے ۔

ہاسپیٹل میں میڈیکل کی طالبہ عامرہ سمالوہازچ میری ترجمان تھی اور ہر جگہ میٹنگ یا کانفرنس میں میرے ساتھ جاتی تھی ۔ اسکا باپ بوسنین آرمی میں میجر اور بڑا بھاٸی سولجر تھا ۔ گھر میں صرف ماں اور دادی دادا تھے ۔ وہ اکثر کہتی کہ چیف میرے دادی دادا اور ماں پاکستان آرمی کی باتیں سن کر آپ لوگوں سے بہت محبت کرتے ہیں اور آپ کو گھر چاٸے پر بلانا چاہتے ہیں ۔ اصولاََ ہمیں اس طرح کسی کے گھر جانا منع تھا مگر ایک دن عامرہ کا بھاٸی مرزا مجھے لینے ہاسپیٹل آ گیا ۔ ہم کیمپ سے باہر صرف یونیفارم میں ہی جا سکتے تھے ۔

انکا فلیٹ تزلا یونیورسٹی کے ساتھ ایک بمباری سے متاثرہ خستہ حال عمارت میں تھا ۔ شام کے وقت جلد ہی ہر طرف اندھیرا پھیل رہا تھا ۔ دروازے پر پہنچ کر پتہ چلا کہ وہ جوتے گھر کے اندر نہیں لے جاتے ۔ میں بوٹ اتارنے لگا تو عامرہ نے مجھے لانگ بوٹ اتارنے سے منع کیا اور جوتوں پر چڑھانے کو شو کور دے دیے ۔ گھر کے اندر داخل ہوا تو اندھیرا تھا اور صرف ایک کمرے میں روشنی تھی ۔ میں حیران تھا کہ مجھے گھر بلا کر یہ اندھیرے میں بیٹھے ہیں ۔

کمرے سے دادی دادا باہر آٸے تو کمرے کا بلب بند اور لاٶنج کا روشن ہوگیا ۔ دونوں بزرگ مجھ سے بہت محبت سے ملے مگر بات چیت عامرہ کے توسط سے ہورہی تھی کیونکہ وہ صرف بوسنین زبان بولتے سمجھتے تھے ۔ انکا مجھ سے ملنے کا مقصد صرف پاکستانی فوج کا شکریہ ادا کرنا تھا کہ ہم کیمپوں میں بوسنین لوگوں کی دیکھ بھال اور ہاسپیٹل میں بیماروں کا علاج کر رہے ہیں ۔

عامرہ نے ہنستے ہوٸے مجھ سے معذرت کی کہ کچھ وقت مجھے اندھیرے میں بیٹھنا پڑے گا کیونکہ وہ کچن میں روشنی کرکے چاٸے بناٸے گی ۔ لاٶنج کی لاٸیٹ بجھ گٸی اور کچن میں روشنی ہوگٸی ۔ چاٸے بن کر آ گٸی تو لاٶنج کا بلب دوبارہ روشن ہوگیا ۔ میں اس سارے قصے سے حیران سا بیٹھا تھا ۔ چاٸے پیتے ہوٸے میں نے عامرہ سے اس جلتے بجھتے بلب کا راز پوچھا تو کہنے لگی پچھلے ایک سال سے شہر کے مٸیر نے اعلان کر رکھا ہے کہ ملک میں لوڈ شیڈنگ ہے اس لیے ہر گھر میں ایک وقت میں صرف ایک بلب ہی روشن ہوگا تو ہم ایک وقت میں دوسرا بلب نہیں جلاتے ۔

میں آپ سے معذرت کرتی ہوں کہ آپکو کچھ وقت اندھیرے میں بیٹھنا پڑا ۔ میں یہ سن کر حیرانگی سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ بہت دل چاہا کہ باہر بازار میں نکلوں اور پاکستانیوں کا آواز دوں کہ کسی کا قومی کردار دیکھنا ہے تو آٶ جنگ میں لٹی پٹی اس قوم کو دیکھ لو ۔

ایک اور واقعہ

ہتزلا کی اسلامی یوتھ آرگناٸزیشن بوسنیا کا ایک رکن لڑکا المیر ظاہروچ صبح صبح کسی مریض کیلیے مدد لینے میرے پاس آیا ۔

میں میس میں ناشتہ کر رہا تھا ۔ اسے وہیں بلوا لیا اور ناشتے کا پوچھا ۔ اس نے دعوت خوشی سے قبول کرلی ۔ ناشتہ بن کر آیا تو انڈا آملیٹ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور کہنے لگا چیف میں آج ایک سال بعد انڈا کھاٶنگا ۔ میں اس بات پر دل ہی دل میں بہت پریشان ہوا کہ جنگ کسی قوم کو اس حالت تک پہنچا دیتی ہے اور دوسری طرف دیکھیں تو ہمارے کچن میں سینکڑوں درجن انڈے موجود تھے ۔ میں اسکے ساتھ تزلا ہاسپیٹل کیلیے نکلا تو جیپ میں ایک پیٹی انڈوں کی رکھوا لی ۔

مریض کا مسلہ حل کرکے اسے گھر اتارا تو گارڈ نے وہ انڈوں کی پیٹی بھی اتاری وہ تڑپ کے بولا کہ یہ کیوں ۔ میں نے کہا المیر یہ آپکے گھر کے لیے ہے ۔ کہنے لگا چیف ہم تو صرف تین لوگ ہیں میں اور میرے والدین ۔ اس نے شکریہ کہتے ہوٸے پیٹی کھولی ۔ اس میں سے تین انڈے لیے اور ہمیں سڑک پر کھڑے چھوڑ کر سامنے والے ٹوٹی پھوٹی عمارت میں چلا گیا ۔

میں وسچا کیمپ کی طرف دوڑتی جیپ میں بیٹھا مسلسل سوچ رہا تھا کہ اگر آج اسکی جگہ میں ہوتا تو کیا میں بھی ایسا ہی کرتا ۔ شکر ہے کہ اندھیرے کی وجہ سے میرے چہرے کے تاثرات میرا ڈراٸیور اور گارڈ نہ دیکھ پایا تھا ورنہ میری کیا عزت رہتی کہ میرا ایسا کردار کہاں ۔

اپنی قوم کا جو حال اس وقت ہے اگر ہمیں جنگ لڑنی پڑ گٸی تو ہم یقینناََ ایک دوسرے کی روٹی تک چھیننے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔ کچھ دن پہلے میں نے صرف یہ گذارش کی تھی کہ امپورٹیڈ چیزوں کا استعمال چھوڑ کر ہم اپنی معاشی بدحالی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اور لوگوں نے بدتمیزی شروع کردی ۔

میری پاکستانی بھاٸیوں سے التجا ہے کہ جو دل چاہتا ہے استعمال کریں مگر اپنی لمبی زبانوں پر تو قابو پانا سیکھ لیں ۔

ازقلم

برگیڈیربشیرآرائیں

urdu blogs and articles

Keywords : urdu articles ,urdu articles websites , urdu articles for students , urdu blogs and articles ,urdu articles on life , interesting urdu articles , articles in urdu language , urdu articles on social issues , urdu articles on current affairs , urdupoint article , urdu articles pdf , short articles in urdu , best articles in urdu , cosmopolitan magazine in urdu pdf , today article in urdu , book review in urdu language , book review examples in urdu , urdu novels book reviews in urdu , urdu adab articles , latest urdu articles , free urdu articles , article on allama iqbal in urdu , social media articles in urdu , urdu novels book reviews , self improvement articles in urdu pdf, urdu blogs and articles, urdu blogs and articles

Comments are closed.