سنہرے دور کی سنہری یادیں تحریر راجہ قدیر

Urdu Story Pakistan To America

Urdu Story Pakistan To America Course By Raja Qadeer

Urdu Story Pakistan To America

Urdu Story Pakistan To America

سنہرے دور کی سنہری یادیں

urdu story with moral

۔۔ 1985 میں جب میں کورس کے لئے امریکہ گیا تو ہمیں بلڈنگ نمبر 1400 میں رہائش دی گئی۔ ریسیپشن میں ہمیں پیک ڈنر اور کوائف کمپیوٹر میں انٹر کرنے کے بعد اپارٹمنٹ کی چابی دی گئی ڈنر تو سفر میں چار دفعہ کر چکے تھے۔ 36 گھنٹے کا تھکا دینے والا سفر اور دن وہی۔ پاکستان میں دوسرا دن شروع ہو چکا ہو گا۔

فائیو سٹار اکاموڈیشن تھی۔ ہم سٹیٹ گیسٹ تھے۔ ڈبل سٹوری بلڈنگ میں اوپر نیچے 200 سے زیادہ ایک کمرے ایک بلڈنگ میں تھے۔ زندگی کی ساری سہولتیں بلڈنگ کے اندر تھیں۔ ریکریشن اور ان ڈور گیمز بھی موجود تھیں ۔ ہر سٹوڈنٹ کو علیحدہ اپارٹ منٹ الاٹ کیا جاتا تھا۔

short urdu stories

اس بلڈنگ کو بلٹنگ کہتے تھے۔ اس قسم کی بہت ساری بلڈنگز تھیں سب کے نمبر علییدہ تھے۔ ہماری بلڈنگ 1400کے تمام اپارٹمنٹ میں دو بیڈ۔ بیڈ سائڈ ٹیبل۔ ٹیبل لیمپ سٹڈی کے لئے بیڈ سائڈ ٹیبل پر پڑا ہوتا۔ چھوٹا ون مین ریفریجریٹر ۔ باتھ روم ٹب آٹومیٹک مکسر جس کو جس ٹمپریچر پر سیٹ کر دیں اسی درجہ حرارت کا پانی آتا تھا۔

کافی کلر کے باتھ اور ہینڈ ٹاولز جو ہر روز تبدیل ہوتے تھے۔ بیڈ شیٹ پلو کور ہر روز فلپائینی ویٹریس تبدیل کرتی اور عمدہ مہارت سے بیڈ کو سیٹ کرتی۔ کافی میکر اور پانی ٹھنڈا گرم کرنے والا کولر۔ اور سبز چائے کالی چائے اور کافی بیگز پڑے ہوتے۔ صابن کی چھوٹی ٹکیاں ایک دفعہ استعمال کے بعد ڈسٹ بن میں۔ شیمپو کے ساشے۔ ڈسٹ بن ہر روز نیا بیگ چڑھا کر ڈس انفیکٹڈ کیا جاتا۔

کبھی کوئی چاکلیٹ اور پھول بھی ٹیبل پر پڑے ہوتے۔ ہم سکول کلاس روم جاتے تو سارا کام ویٹریس ماسٹر چابی سے دروازہ کھول کر کرتی۔ کپڑے اور سوٹنگ کی الماریاں علیدہ مین ڈور کے ساتھ ہوتی۔ استعمال شدہ کپڑے الماری میں ہینگر پر لٹکا دیتی۔ ایک پلاسٹک بیگ چھوڑ جاتی۔ دھلائی والے کپڑے ہم اس میں ڈال دیتے ویٹریس کام ختم ہونے کے بعد کپڑوں کے بیگ اٹھا کر لانڈری میں واشنگ مشین میں ڈال دیتی۔

urdu stories website

ڈرائر سے نکال کر استری کر کے الماری میں رکھ جاتی ۔ جب ہم کلاس ختم کر کے آتے تو اپارٹمنٹ تیار ملتا۔ کارپٹ پر ہر روز ویکم کلینر سے صفائی ہوتی۔ ٹیلیوژن جس میں بہت سارے چینلز تھے۔ انگلش ڈراموں اور انگلش کی ہر کیٹیگری کے لئے علیحدہ چینلز۔ کامیڈی۔ تھرلنگ ۔ ہیرر۔ ٹرر۔ سپورٹس۔

کلاسک فلموں ٹی وی پلیز کے علیدہ چینل ہوتے تھے۔ موسم کا حال بتانے کے لئے علیحدہ چینل جو ہر وقت موسم کا حال بتاتے رہتے۔ ائیر فورس بیس کا اپنا چینل جو بیس کی خبریں۔ موسم کا حال اور ٹورز اور ٹرپس کے بارے میں انفارمیشن دیتا رہتا۔ ریسیپشن پر ایک ہینڈ ٹچ کمپیوٹر لگا ہوا تھا۔ جس میں ٹریول۔ ریسٹورنٹ ۔انٹرٹیننمنٹ ۔ جس چیز کو ٹچ کریں اس کے مزید آپشن سامنے آ جاتے تھے۔

اگر ٹریول کو ٹچ کریں تو آئر .روڈ سامنے آتے اگر ریل کو ٹچ کریں تو ساری ریلویز کے ٹائمنگ آ جاتے۔ اگر ائر کو ٹچ کریں تو مختلف ائر لائنز اور ساری انفارمیشن سامنے آ جاتی۔ اور سب کے بارے میں تفصیلات مل جاتیں ۔ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

بلڈنگ تو سنٹرل ائیر کنڈیشنڈ تھی۔ باہر جانے سے پہلے باہر کا ٹمپریچر اور موسم ٹی وی سے مل جاتا۔ کایڈور میں بھی وہی ٹمپریچر ہوتا۔ کاریڈور کارپٹڈ تھا۔

Mile high city denver

کمرے کا ٹمپریچر ایڈ جسٹ کر سکتے تھے۔ مری نتھیا گلی کی طرح ٹھنڈا تھا۔ باہر گرم کپڑے پہن کر نکلتے تھے۔ یہی حال کلاس رومز اور سکول۔کا تھا۔ الفاظ نہیں مل سکتے کہ تفصیل بتا سکوں۔ امریکہ بہت ترقی یافتہ اور امیر ملک ہے۔ پوری دنیا امریکہ کے گرد گھومتی ہے۔ میں نے وہاں کسی کو پریشان نہیں دیکھا۔ ہر آدمی مسکرا کر بات کرتا۔

اگر کوئی آپکو سمائل دے گا تو آپ بھی جواب میں مسکرا کر ہیلو کہیں گے۔ ہمارے ایک پاکستانی فلائٹ لیفٹنٹ مقبول صاحب کہتے کہ راستے میں جو بھی ملتا ہے یا ملتی ہے تو ہائے کرتی ہے۔ میں نے کہا کہ وہ شارٹ ورڈ استعمال کرتے ہیں۔ اصل میں وہ کہتے ہیں۔

How are you . Hi

کمرے کے باہر کھلا میدان تھا۔ جو ایک بڑی کھڑکی سے پورا نظارہ ہوتا تھا۔ پردہ ایٹومیٹک تھا جو ہر ہفتے تبدیل ہوتا۔ جب برف پڑتی تو پردہ ہٹا دیتے اور فل شیشے کی کھڑکی سے چاند کی ریلیکسیشن سے اتنی روشنی ہوتی کہ لائٹ کے بغیر بھی پڑھا جا سکتا تھا۔ کبھی موسم صاف ہوتا تو کچھ امیریکن ائیر فورس کے ایئرمین ایرو ماڈلنگ کرتے چھوٹے ایک انجن والے جہاز جن کے انجن میں بینزین آئل پڑتا ریموٹ کنٹرول سے اڑاتے قلابازیاں بھی کھلاتے۔

ہم تماشا دیکھنے باہر چلے جاتے۔ بلڈنگ کے اندر ایک ڈائنگ ہال تھا۔ صبح ناشتہ گرم گرم تیار ملتا۔ بڑے توے پر لیڈی کک کھڑی ہوتی اور پہلے گڈ مارننگ کہتی پھر پوچھتی کیا کھانا ہے۔ ہم آملیٹ اور بریڈ کہتے پھر وہ پوچھتی پیاز یا ٹماٹر مکھن جو کہتے بڑی مہرت سے تیار کر کے ایسے اچھالتی کہ پلٹی کھا کر پھر دوسری طرف سے توے پہ گرتا۔

Have a nice breakfast.

بریڈ بھی گرم کرکے پلیٹ میں رکھ کر کہتی ۔ چائے کافی کے بیگ پڑے ہوتے گرم پانی بھی بڑے پیتل کے حمام میں ہوتا۔ ڈسپوزل گلاس بھی ہوتے۔ مرضی سے جو پسند ہے سیلف سروس ہوتی۔ جام اور شہد۔ مکھن کی ٹکیاں بھی آخر میں رکھی ہوتیں۔ ہر ایک اپنی چائس کے مطابق لیتا اور ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتہ کرتا۔ اور سکول میں کلاس ،6 بجے صبح شروع ہوتی ہم تقریباً 20 منٹ پہلے پہنچ جاتے۔

امریکن سٹوڈنٹ بھی آتے اور مارننگ کہہ کر بیٹھ جاتے۔ 12 بجے لنچ بریک ہوتی سکول کے اندر سے ہر چیز مل جاتی۔ کبھی کورس انچارج امریکن میجر آ کر ہم پاکستانیوں سے پوچھتا کہ

How was your lunch. Then he says We have halal chicken for muslims. You can take and fish is also there. Have a nice lunch.

Urdu Story Pakistan To America

تین بجے کلاس ختم ہوتی۔ بیس کے اندر ایک شٹل بس سروس بھی چلتی جو سارے بیس کا چکر لگاتی۔ بس ڈرائیور ایک امریکن عورت تغی بڑی سخت تھی جو بیلٹ نہ باندھے یا بس کھڑی ہونے سے پہلے اٹھے تو اس کی خوب کلاس لیتی۔ بس پر زیادہ دیر لگتی۔ کبھی ہم پیدل ہی اپنی بلڈنگ میں آتے جاتے۔ 15 منٹ کی واک تھی۔

راستے میں ایک ڈبل روڈ تھی۔ جس کے باہر ایک کھمبے پر سویچ لگا تھا۔ اس کو استعمال کرتے تو تمام ٹریفک دونوں طرف سے رک جاتی۔ دوسری طرف جا کر پھر سویچ بند کرتے۔ اور ٹریفک چل پڑتی۔ یہی روز کا مامول تھا۔ رات کو ڈنر کے لئے جاتے تو مینو سامنے سے کمپیوٹرائز بورڈ پر لکھا ہوتا۔

Veal Roasted Duck

کبھی فش۔ بریانی۔ ہوائین . میٹ۔ . سب کچھ لکھا ہوتا مرضی سے ہیڈ کک لیڈی کو کہتے وہ ڈال دیتی ۔ دودھ علیدہ علیدہ چاکلیٹ ملک۔ 2% فیٹ ملک۔ لسی۔ چائے جو پینا ہے۔مرضی سے ڈالیں۔ آخر میں فروٹ ہر قسم کا ہوتا چوائس کے مطابق لے کر ٹیبل میں بیٹھ کر کھا لیں۔

بلڈنگ کے اندر ایک باربر شاپ بھی تھی نائی ایک امریکی تھا ۔ ایک ڈالر میں بہترین ہیر کٹنگ کرتا تھا۔ صآف ستھری باربر شاپ تھی۔ نیا تولیہ کپڑا نکالتا۔ مشین کے پیچھے ساتھ ایک پائپ جڑا ہوتا جس کا کنکشن ایک کینٹینر میں تھا کینٹینر میں ویکم کلینر کی طرح مشین لگی تھی جو بال پائپ کے زریعے اس میں جاتے اور باہر یا گردن پر نہیں پڑتے تھے۔ بڑا ایڈوانس سسٹم تھا۔ لیکن نائی چاہے پاکستانی ہو یا امریکی باتونی ہوتا ہے۔

stories in urdu for reading

ہیر کٹ کے دوران انگریزی میں کہتا کہ ماونٹ ایورسٹ آپکے نزدیک ہے ۔ مجھے وہاں جانے کا شوق ہے۔ میں اس کو سمجھاتا کہ وہ نیپال میں ہے جو ہم سے تیسرا ملک ہے۔ پھر وہ کہتا مجھے ضیا الحق پسند ہے۔کہتی خومینی

خومینی Is good guy. I like Middel east.

گلف کے بارے میں باتیں کرتا۔ بور نہیں ہونے دیتا۔ بڑے اچھی طرح نیا بلیڈ لگا کر کام کرتا ۔ پھر تولیہ اتار کر سر کو مساج کرتا اور ایک ڈالر میں سب ٹھیک کرتا غسل کمرے میں آ کر کرتے۔ امریکہ میں دوسرے انسٹرکٹر کورس کا حال بعد میں اگلی قسط میں لکھوں گا۔

moral stories in urdu for reading

یہ سنہری دور تھا جو بیت گیا۔

کانسی کا لوہے کا زمانہ بھی گزر گیا اب پتھر کا دور شروع ہے۔ وقت کی رفتار تیز ہے۔ اچھا وقت گزر گیا یاد رہ گئی

جب عمر کا آخر آتا ہے

تو سب نخرے ختم شد۔۔

بیماریاں دوائیں اور درد شروع ۔ اللہ کا شکر ہے زندگی

بھرہور محنت اور لگن سے گزری کوئی ارمان نہیں

ﺑﮍی ﺯﻧﺪگی ﺗھی، ﺑﮍی زندگی

ﺯﻧﺪگی،ﻣﮩﮑتی، ﮨﻤﮑﺘﯽ، ﮐِﻬلی ﺯﻧﺪگی ،

ﺻﺒﻴﺢ ﻭ ﻭﺟﻴﮩﮧ ﻭ جَلی ﺯﻧﺪﮔﯽ ،

ﺣﺴﻴﮟ ، ﮐﻮﮐتی ، ﮐﻮﻧﺪتی ﺯﻧﺪگی،

ﺑﮍی ﺯﻧﺪگی ﺗھی ، ﺑﮍی ﺯﻧﺪگی….

ﮔُﻠﻮﮞ ﻣﻴﮟ ﻣﮩﮏ ، ﺭﻧﮓ ﻣﻴﮟ ﺗﺎﺯگی،

ﻓﻀﺎ ﻣﻴﮟ ﺧﻤﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﻣﻴﮟ ﺧﻮشی،

ﺭﮒ ﻭ ﭘﮯ ﻣﻴﮟ ﺍُﺗﺮی ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺮﻕ ﺳﯽ ،

ﮐﻬﻨﮑتی، ﮔﻬنی، ﺩﻧﺪﻧﺎتی ﮨﻨﺴﯽ،

ﺑﮍی ﺯﻧﺪگی ﺗھی، ﺑﮍی ﺯﻧﺪگی ـ۔…

..اگر کوئی غلطی ہے تو درگزر کریں اور میری حوصلہ افزائی کریں۔

شکریہ

تحریر ۔ راجہ قدیر

Urdu Story Pakistan To America

یہ کہانی بھی پڑھیں پارو چڑیل کی کہانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.