جنات کا مسکن گھر

horror story in hindi urdu

جنات کا مسکن گھر

horror story in hindi urdu

شادی ہو کر جس گھر میں آئی۔ یہ گھر کم جنات کا مسکن زیادہ لگتا تھا۔ حویلی ٹائپ یہ گھر۔ جس میں دو پورشن تھے اور اسکے اوپر چھت۔ دونوں پورشن میں تقریبا پانچ پانچ کمرے تھے گھر کے آگے بڑا سا لان۔جو کہ ہریالی اور درختوں سے بھر پور تھا اور کافی خوبصورت لگتا تھا۔لیکن رات کے وقت یہ بہت خوف دلاتا تھا۔اور اتنے بڑے گھر میں رہنے والا کون۔ صرف میری ساس اور شوہر۔ اور اب تیسرا فرد میں۔اس گھر کو میں نے جنات کا مسکن اس لیئے کہا کہ سناٹا یہاں دن کے وقت بھی رات جیسا ہوتا تھا۔

ساس میری کم گو تھیں۔ کمرہ بند کر کے اپنی عبادات تسبیحات میں لگی رہتیں۔ شوہر آفس ہوتے۔ میں اس گھر میں اکیلی بھلا کیا شور مچاتی۔؟ کام والی آتی تھی۔ کام کر جاتی۔ کھانا پکانے والی بھی آتی تھی۔ مگر میں نے اسے ہٹا دیا۔ اگر میں کھانا بھی نا پکاتی تو دن بھر کیا کرتی۔ بہرحال۔ بہت جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ یہاں ہمارے سوا کوئی نہیں رہتا یہ میری بہت بڑی غلط فہمی تھی۔ کوئی تھا۔ جو بہت پہلے سے یہاں رہ رہا تھا۔ اب معلوم نہیں اسے میری موجودگی پسند نہیں آ رہی تھی یا وہ مجھے اپنی موجودگی سے آشنا کرانا چاہتا تھا۔

میں سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ بہت کچھ عجیب ہونا شروع ہو گیا تھا۔یہ ایک دوپہر کی بات ہے۔ جب میں کچن میں موجود کھانا پکا رہی تھی۔ اس دن میں نے سوچا کہ آلو کے پراٹھے بنا لیئے جائیں۔ اور میں وہی بنانے میں مصروف تھی۔ جب کسی کی آہٹ کی آواز پہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ توقع کے مطابق میری ساس تھیں۔ جی امی کچھ کام ہے آپ کو۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگیں۔ مجھے تو گوشت پکا دو۔ میں نہیں کھاوں گی یہ۔ میں نے کہا جی امی پکا دیتی ہوں وہ کچن سے چلی گئیں۔

ایک دم مجھے خیال آیا کہ انہیں کیسے پتا کہ میں اس وقت گوشت نہیں پکا رہی سبزی بنا رہی ہوں۔ کیونکہ میں نے انہیں بتایا ہی نہیں تھا۔ میری ساس پکانے کے معاملے میں نا پوچھتی تھیں نا بولتی تھیں۔ جو پکا لو کھا لیتی تھیں۔ خیر۔ انسان ہیں گوشت کا دل چاہ رہا ہوگا۔ میں نے اپنے دل میں آتے وہم کو جھٹکا اور فریج سے گوشت نکال لیا۔ پکانے کے بعد میں کھانا ٹرے میں سجا کر لے گئی۔ اپنے لیئے پراٹھے اور ان کے لیئے گوشت۔ وہ دیکھ کر کہنے لگیں۔ میں بھی آلو کے پراٹھے ہی کھا لیتی۔ میں نے کہا۔ آپ نے ہی تو کہا تھا کہ گوشت کھانا ہے۔

انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ میں نے کب کہا ایسا؟ ان کے پوچھنے پہ میں نے حیران ہو کے بتایا کہ آپ نے کچن میں آ کر کہا تھا کہ گوشت پکا دو۔ وہ مسکرانے لگیں اور بولیں۔ یہ گوشت کی پلیٹ اوپری منزل کی سیڑھیوں میں رکھ آو۔ میں نے سوال کرنا چاہا تو انہوں نے منہ پہ انگلی رکھ کر خاموش کرا دیا۔ میں سمجھ چکی تھی۔ معاملہ کچھ اور ہے۔ چناچہ چپ چاپ پلیٹ اوپر والی سیڑھی پہ رکھ آئی۔ اور حیرت کی انتہاء نا رہی اس وقت جب یہ پلیٹ شام کو مجھے خالی ملی۔ اوپر تو کوئی رہتا نہیں ہے۔ کھانا کس نے کھایا۔؟

وہ جو کوئی بھی تھا۔یہ میری اور اس کی پہلی ملاقات تھی۔ اور میرے ساتھ ہونے والے عجیب واقعات کی شروعات یہیں سے ہوئی تھی۔اس کے بعد میں ساس کے بنا کہے اکثر جب بھی گوشت بناتی ایک پلیٹ اوپری منزل۔کو جانے والی سیڑھیوں میں رکھ دیا کرتی۔ کبھی کچھ میٹھا بناتی تو وہ بھی رکھ دیتی۔ پھر پلیٹ خالی ملا کرتی تھی۔ میں سمجھ چکی تھی یہاں جنات ہیں۔ بہرحال ہمیں کوئی نقصان نہیں دیتے تھے۔ بس کچھ عجیب واقعات ہوتے رہتے۔ کبھی کسی بچے کے رونے کے آواز آتی کبھی ایسا لگتا بہت ساری لڑکیاں آپس میں مل کر ہنس رہی ہوں۔

کبھی لگتا کوئی عورت میرے پیچھے سے گزری ہے۔کچھ زیادہ حیران کن بھی ہو جاتا۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ نہانے چلی گئی۔ اس وقت میری ساس سو رہی تھیں۔ اتنے میں دروازے کی گھنٹی بج گئی۔ یااللہ کون آ گیا اس وقت۔ میں نے سوچا۔ بہر حال کپڑے پہن کر باہر نکلتے تھوڑی سی دیر لگ گئی۔ باہر آئی تو دیکھا کہ۔میرے شوہر صوفے پہ بیٹھے تھے۔ آپ یہاں اس وقت؟ میں نے حیرانی سے پوچھا۔ اس سے زیادہ حیرانی سے انہوں نے مجھے اور پھر اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اور پریشان ہو کر بولے۔ اگر تم یہاں ہو تو جس نے دروازہ کھولا۔

وہ کون تھی؟کیا مطلب میں نے حیرت سے پوچھا تو کہنے لگے کہ دروازہ بھی تم نے کھولا ہے باتھ روم سے نہا کر بھی تم آ رہی ہو میں تو اس لیئے جلدی گھر آ گیا کہ میری آج طبیعت ٹھیک نہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ دروازہ میں نے نہیں کھولا۔ بہرحال ہم دونوں میاں بیوی نے بات کو زیادہ کریدا نہیں۔ ہم سمجھ چکے تھے۔پھر ہوا یوں کہ کچھ دن بعد مجھے خوش خبری ملی کہ ماں بننے والی ہوں۔ یہاں سے میرے ساتھ ہونے والے واقعات کچھ بھیانک رخ اختیار کر گئے۔اس رات میں اور میرے شوہر باہر گھومنے گئیے تھے۔

واپس آ کر جب ہم سوئے تو اس رات جو ہوا وہ میرے لیئے ناقابل برداشت تھا۔رات کے نجانے کتنے بجے کا وقت تھا۔ جب کمرے کا دروازہ کھلا۔ ایک عورت جو قد میں لمبی اور جسامت میں اچھی خاصی چوڑی تھی۔ سیاہ لباس میں اندر داخل ہوئی۔ اس کے چہرے پہ بائیں گال پہ کھڈا سا تھا۔ جیسے کسی وقت میں شدید آگ لگنے سے کھال جھلس گئی ہو۔۔ اس کے ہاتھ میں کوئی نوکیلی سی چیز تھی۔چاقو ٹائپ۔ وہ بیڈ پہ میرے پاس آ کے کھڑی ہو گئی۔ میں اسے دیکھ رہی تھی۔ اور ایسے کہ میرا سارا جسم سن ہو چکا تھا۔

میں صرف اپنی آنکھوں کو حرکت دے سکتی تھی۔ اور آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس عورت میں سے بڑی گندی بدبو اٹھ رہی تھی۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ نوکیلی چیز میرے دل پہ رکھ دی۔ اور پھر وہ اسے چلاتی ہوئی میرے پیٹ تک لے آئی۔ پھر اس نے ہاتھ ہوا میں ایسے اٹھایا کہ جیسے وہ چیز میرے پیٹ میں گھونپ دے گی۔۔ جیسے ہی اس کی نوکیلی چیز جو کہ چاقو ٹائپ تھی میرے پیٹ تک آئی۔ میں نے زوردار چیخ ماری اور اٹھ بیٹھی۔ میں پسینے میں شرابور ہو رپی تھی۔ میری آنکھ اپنی ہی چیخ سے کھلی تھی۔

میرے شوہر بےخبر سو رہے تھے۔ کیا وہ میرا خواب تھا۔ میں نے سوچا۔ مگر نہیں۔ یہ خواب نہیں تھا۔ کیونکہ۔ کمرے کا ادھ کھلا دروازہ جو کہ میں رات کو لاک کر کے سوئی تھی۔ اور کمرے میں پھیلی شدید ناگوار بو اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ جو کچھ ہوا وہ محض خواب نہیں تھا۔جیسے تیسے رات گذاری۔ صبح رات والے واقعے کا ذکر شوہر سے کیا تو وہ بھی کچھ پریشان ہو گئے۔ کہنے لگے کہ یہ بات تم امی کو بتا دو۔ دوپہر کو جب میں کھانا لے کر ساس کے پاس بیٹھی تو میں نے انہیں ساری بات بتائی۔

میری ساس نے کہا کہ رات کو میرے پاس آنا۔ میں دیکھتی ہوں کہ کیا مسلہ ہے۔ اتنا تو میں جانتی ہوں کہ اس گھر میں رہنے والا جنات کا قبیلہ ایک عرصے سے اس گھر میں رہ رہا ہے اور وہ نقصان پنہچانے والا نہیں۔ یہ میرے لیئے نیا انکشاف تھا کہ میری ساس کچھ نا کچھ عملیات کا علم جانتی تھیں اور اس گھر میں کوئی ایک آدھ جن نہیں بلکہ باقائدہ پورا قبیلہ جنات کا رہتا ہے۔ جن میں ہر عمر کے جنات موجود ہے۔ بچے بوڑھے جوان عورتیں۔ اور انکا سردار بھی ہے۔ خیر میں نے جیسے تیسے دن گزارا۔

رات کو اپنی ساس کے پاس گئی تو وہ پوچھنے لگیں کہ تم کل رات کہاں گئی تھیں۔ میں نے کہا کہ ہم ریسٹورنٹ گئے تھے اور وہاں سے واپسی پہ ایک فیملی پارک میں چلے گئے تھے۔ کہنے لگیں کہ اس فیملی پارک سے ایک خبیث عورت تمہارے پیچھے لگ کر اس گھر میں آ گئی ہے۔ اور اسے تم سے نہیں تمہارے بچے سے غرض ہے۔ وہ اسے مار کے لے جانا چاہتی ہے۔ یہ سب سن کر میں رونے کو آ گئی۔ وہ کہنے لگیں۔ پریشان نا ہو۔ جب تک میں ہوں تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔

انہوں نے کچھ پڑھائی کر کے میرے اوپر پھونک دی۔ اور کہا کہ ہر وقت اپنے گرد قرآنی آیات کا ورد کر کے حصار باندھ کے رکھا کرو۔جب تک یہ بچہ اس دنیا میں نہیں آ جاتا۔ اس کے بعد بھی کوئی بندوبست کر لیں گے۔۔ خیر میں وہاں سے آ گئی۔ مگر بہت ڈری ہوئی تھی۔ پھر اس کے بعد کچھ نا ہوا۔ میں ہر وقت آیات کا ورد رکھنے لگی۔ یہ تقریبا اس وقت کی بات ہے جب مجھے آٹھواں مہینہ لگ چکا تھا۔ میں اپنے کمرے سے نکل کر کچن کی طرف جا رہی تھی جب مجھے کسی نے زور سے پیچھے سے دھکا دیا۔

میری بلند ہوتی چیخ اس وقت میرے حلق میں رہ گئی۔ جب میں گرنے کے بجائے آدھی فضاء میں ہی معلق رہ گئی۔ کسی دو ہاتھوں نے مجھے تھاما ہوا تھا اور گرنے سے بچا لیا تھا۔ میں وہیں بیٹھ گئی۔ میرے دل کی ڈھڑکن بے قابو ہو رہی تھی۔ میں گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ جب پیچھے سے کسی نے میرے سر پہ ہاتھ رکھا۔ میں نے مڑ کر دیکھنا چاہا مگر میری گردن نا ہلی۔ بس آواز آئی۔ فکر نا کرو بیٹی۔ ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ اس کے بعد وہ ہاتھ میرے سر سے ہٹا لیا گیا۔ میں نے ایک دم گردن موڑ کر دیکھا۔ مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔

ہاں ایک خوشبو تھی۔ جو میرے آس پاس بکھری ہوئی تھی۔۔ میں اکثر اپنے شوہر کو مزاق میں کہتی تھی کہ یہ گھر تو کہانیوں والا بھوت بنگلہ ہے۔ مگر یہ بھوت بنگلہ اب میری حفاظت کر رہا تھا۔ اس گھر کے بھوتوں سے جو کہ جنات تھے۔ ایک الفت سی ہو گئی تھی۔ویسے بھی اکثر محلے والی خواتیں آ کر بتایا کرتی تھیں کہ تمہاری چھت پہ اکثر رات کو روشنی ہوتی ہے۔ جس میں کافی مرد و عورتیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ اکثر اس گھر کی اوپری منزل کی کھڑکیوں سے کوئی عورت تو کبھی کوئی لڑکی جھانکتی دکھائی دیتی ہے۔۔

یہ باتیں ہمیں اس لیئے بتائی جاتی تھیں کہ سب جانتے تھے کہ ہم اس گھر میں تین ہی فرد رہتے ہیں۔ مگر خیر یہ میرا مسلہ نہیں تھا۔ میرا مسلہ تو وہ عورت تھی جو میرا بچہ لے جانا چاہتی تھی۔ اور اس خوف نے میری دن رات کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔آخر کار میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ہمیں یہ گھر چھوڑ دینا چاہیئے۔۔ یہی بات میں نے اپنی ساس سے بھی کہی۔ پھر انہوں نے جو بات سمجھائی وہ میری سمجھ میں آ گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا۔ اس گھر کے جنات تو اس عورت سے تمہاری حفاظت کر رہے ہیں۔

اگر تم یہاں سے نکلی تو اس کا مقابلہ نا میں کر سکتی ہوں نا تم۔۔ اس مخلوق کو ان لوگوں کے مقابلے پہ ہی رہنے دو۔ ایسا نا ہو کہ یہاں سے نکل کر تم اس بچے سے ہاتھ دھو بیٹھو۔ اور اس بات نے مجھے خاموش ہونے پہ مجبور کر دیا۔ نواں مہینہ لگا تو میرے ساتھ عجیب واقعات بڑھ گئے۔ خواب میں اکثر وہ عورت دکھنے لگی۔ میں رات کو سوتی تو مجھے جھنجھوڑ کر اٹھا دیتی۔ مجھے گرانے کی کئی بار کوشیش کی گئی مگر میں ہر بار بچ جاتی۔ اور اللہ کا شکر ادا کرتی۔ آخر کار ہمارے گھر ایک ننھی سی گڑیا آ گئی۔ گلابی سی خوبصورت سی گڑیا۔

جس دن سے وہ پیدا ہوئی میری ساس نے معمول بنا لیا۔ رات اس پہ پڑھ کر پھونکتی۔ صبح ہوتے ہی اس پہ پڑھائی کرتیں۔ اس طرح میری بچی بڑی ہونے لگی۔ ہم نے اس کا نام نور رکھا تھا۔۔ نور اکثر لیٹے لیٹے ہنسا کرتی تھی۔ میں نے دھیان نا دیا۔ بچے ایسے ہنستے ہی ہیں۔ اور کبھی کبھی اتنا شدید روتی تھی کہ ہمیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی۔ اکیلی کھیلتی رہتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی ہے جس کے ساتھ وہ کھیل رہی ہے۔ بولنے لگی تو توتلے الفاظ میں بتانے لگی۔ ماما وہ آنٹی گندی ہیں۔ منہ بسورتے ہوئے بتاتی۔ کونسی آنٹی؟

میں جب پوچھتی تو کسی ایک کونے کی طرف اشارہ کر دیتی۔ وہ آنٹی۔ اور میرے دیکھنے پہ مجھے کچھ نظر نا آتا۔ کبھی کہتی کہ میرے دوست مجھے کھیلنے بلا رہے ہیں اور پھر اٹھ کر چل دیتی۔ سارا دن پورے گھر میں ایسے بھاگتی جیسے بھاگم دوڑی کا کھیل چل رہا ہو۔ اور خود ہی خود باتیں کرتی جاتی۔ تم نے مجھے دھکا دیا۔ تم کل آ جانا۔ میں تم سے ناراض ہوں۔ تم سب چھپ جاو میں ڈھونڈتی ہوں۔ میں تمہاری مما سے شکایت کروں گی۔ اس طرح کی باتیں کرتی اکیلے کھڑے ہو کر۔ میری ساس نے مجھے منع کرا ہوا تھا کہ میں نور سے کچھ نا پوچھوں۔

ورنہ وہ خوف زدہ ہو جائے گی کہ جو مجھے نظر آ رہا وہ مما کو نظر کیوں نہیں آ رہا۔ اس طرح بچی کے زہن پہ اثر پڑ سکتا تھا۔ یقینا اس گھر میں رہنے والے جنات کے بچے تھے جو اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ اور نور اس بات سے لاعلم تھی۔نور چار سال کی ہو چکی تھی۔ ان دنوں میری ساس کی طبیعت بےحد خراب رہنے لگی۔اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میری ساس کا انتقال ہو گیا۔ جاتے جاتے وہ مجھے نصیحت کر گئی تھیں کہ اس گھر کو نا چھوڑنا۔ یہاں کے جن پہلے میری وجہ سے تمہاری خبر گیری رکھتے تھے۔

اب انہیں تم سے اور خاص کر نور سے بہت الفت ہو گئی ہے۔ وہ اسے نقصان نہیں ہونے دیں گے۔ میری ساس کے انتقال کے بعد کتنے ہی دن تک گھر میں محسوس ہونے والی جنات کی موجودگی بلکل محسوس نا ہوئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ بھی اداس گم سم ہو گئے ہیں۔میں خود بہت اداس تھے۔ اس سب پر یہ کہ میری نور پہ صبح شام پڑھائی کر کے حصار کھینچنے والا کوئی نا رہا تھا۔ میں خود ہی آیت الکرسی پڑھ کر دم کر دیا کرتی تھی۔ مگر ماں تھی نا۔ ایک خوف تھا جو ہر وقت دامن گیر رہتا تھا

عجیب جگہ تھی۔ کچھ نہیں تھا ۔بس آدھے حصے پہ اندھیرا اور آدھے پہ روشنی تھی۔ سفید روشنی۔ نور ان دونوں کے بیچ میں کھڑی تھی۔ مطلب نور کا دایاں جسم روشنی میں تھا اور بایاں اندھیرے میں۔ ایک دم ایک زور دار چنگھاڑ بلند ہوئی۔ اور کسی نے ایک دم بائیں جانب سے پکڑ کر نور کو اندھیرے میں کھینچ لیا۔ اس سے پہلے کے نور پوری اندھیرے میں گم ہوتی۔ روشنی کی طرف سے ایک ہاتھ آیا۔ اور نور کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا۔ اب حال یہ تھا کہ وہ کبھی اندھیرے کی طرف کھنچی جا رہی تھی کبھی روشنی کی طرف۔

نور بری طرح چلا رہی تھی۔ مما مما۔ بچاو مما۔ اور ایک دم میری آنکھ کھل گئی۔میں پسینے میں بھیگ رہی تھی۔ میں نے نور کی جانب دیکھا۔ وہ میرے برابر میں سو رہی تھی۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ مغرب کا وقت ہونے والا تھا۔ اوہ میرے اللہ میں دوپہر کی سوئی اتنا سو گئی آج۔ عصر کی نماز بھی قضاء ہوگئی۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ ایک دم جھٹکے سے کمرے کا دروازہ کھلا اور جیسے کسی نادیدہ چیز نے نور کا پاون پکڑ کر گھسیٹا۔ نور دھڑام سے بیڈ سے کھنچتی ہوئی گر گئی۔ میری چیخیں نکل گئیں۔۔

اس سے پہلے کے میں نور کو پکڑتی کسی نے اس کی ٹانگ پکڑ کے کھینچی۔ اور اب وہ زمین پہ گھسٹتی ہوئی کمرے سے باہر جا رہی تھی۔ کوئی اسے گھسیٹ رہا تھا۔اور نور بری طرح چلا رہی تھی۔ میں نور کے پیچھے بھاگی۔ وہ اب صحن میں آ چکی تھی۔ اب حال یہ تھا کہ نور آگے گھسٹتی جا رہی تھی اور روتی جا رہی تھی اس کی ٹانگ ہوا میں معلق تھی اور اس کے پیچھے میں بھاگ رہی تھی۔ پھر ایسا لگا جیسے میں کسی چیز سے ٹکرا گئی یا کوئی چیز مجھے ماری گئی ہے میں دھڑام سے زمین پہ گری۔

میری بند ہوتی آنکھوں نے جو آخری منظر دیکھا میری نور زمین پہ گھسٹتی ہوئی لان میں کھلنے والے دروازے کی طرف جا رہی تھی۔ اس کے بعد میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔میں بھاگتی جا رہی تھی۔ بھاگتی ہی جا رہی تھی۔ میرے پیروں میں نوکیلے پتھر چبھ رہے تھے۔ نجانے کیسی جگہ تھی۔ اندھیرے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ پپیروں سے سیال مادہ بہہ رہا تھا چکنا چکنا۔ شاید خون تھا۔ مگر مجھے پروا نہیں تھی۔ اس وقت میرے دماغ پہ صرف نور سوار تھی۔ نور نور۔ ہائے کوئی میری بچی لا دو۔ میں چیختی چلاتی ادھر سے ادھر بھاگ رہ تھی۔

بھاگتے بھاگتے ایک جگہ رک گئی۔ میری نور مجھ سے بہت دور لیٹی ہوئی تھی۔ میں گرتے پڑتے اس کے پاس پہنچی۔ نور میں نے اسے ہلایا۔ کوئی حرکت نا ہوئی۔ نور۔ میں نے ناک کے پاس ہاتھ لے جا کر سانس چیک کی۔ سانس بند تھی۔ میرا دل بند ہونے لگا۔ نور۔ میں اسے بری طرح جھنجھوڑنے لگی۔ مما۔ ایک دم آواز ابھری۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ نور کے جسم سے کچھ فاصلے پہ بھی نور ہی کھڑی تھی۔ میں حیران اسے دیکھ ہی رہی تھی کہ نور کے پیچھے سے وہی عورت نکلی۔ جو اسے لے جانا چاہتی تھی

پھر اچانک اس نے نور کو دبوچا اور اندھیرے میں گم ہو گئی۔ نورررر میں پوری قوت سے چلائی تھی۔ پھر بھاگنا شروع کر دیا۔ دور کہیں بہت دور سے نور کی آواز آ رہی تھی۔ مما۔ مما۔ ایک دم میرا پاوں مڑا اور میں کسی گہری کھائی میں جا گری۔ اس کے ساتھ ہی میری آنکھیں کھل گئیں۔ اب بھی آواز آ رہی تھی مما۔ مما۔ میری نور میرے اوپر جھکی مجھے ہلا رہی تھی۔ مما اٹھیں۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا اور اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میری بند ہوئی سانس بحال ہو گئی ہو۔

میرے شوہر برابر میں بیٹھے حیران ہو رہے تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ وہ لازمی بات ہے سارے واقعے سے انجان تھے۔ ان کے کہنے کے مطابق جب میں گھر میں آیا تو نور باہر لان میں کھیل رہی تھی۔ اور تم کچن کے پاس بیہوش ملی تھیں۔ جب کہ گھر کا بیرونی دروازہ صرف بند تھا۔ لاک نہیں تھا۔۔جو کچھ ہوا وہ نور نے ہمیں اگلے دن اپنی ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بتایا تھا جو کچھ اسے سمجھ آیا تھا۔ وہ بتاتی ہے۔ وہ گندی آنٹی تھیں جو مجھے ڈرانے آیا کرتی تھیں وہ مجھے لے جا رہی تھیں۔ تب وہ انکل آئے تھے جو اوپر والے گھر میں رہتے ہیں۔

پھر وہاں لڑائی ہوئی تھی۔ پھر اس گندی آنٹی کو آگ لگ گئی تھی۔ انکل نے مجھے پیار کرا تھا۔ اور کہا تھا کہ مما سے کہہ دینا کہ وہ عورت مر گئی ہے۔ مما مما یہ مرنا کیا ہوتا ہے۔؟ نور بات بتانے کے بعد مجھ سے پوچھ رہی تھی۔ بیٹا جو مر جاتا ہے وہ کبھی واپس نہیں آتا۔نور کو جواب دیتے ہوئے میرے اپنے اندر سکون اتر گیا تھا یہ جان کر کہ وہ مر گئی تھی۔۔ میرے شوہر بھی اس سارے واقعے پہ حیران تھے۔ ہم نے اللہ کا شکر دا کرا اور اگلے دو تیں دن میں بہت سارا میٹھا اور کھانا بنا کر اوپری منزل پہ رکھ دیا تھا۔

یہ ہماری طرف سے شکریہ تھا۔ جسے انہوں نے قبول کر لیا تھا۔ آج بھی محلے کی عورتیں بتاتی ہیں تمہارے گھر کی اوپری منزل میں راتوں کو لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بھوت بنگلہ ہے اسے چھوڑ دو۔ مگر میں اس بھوت بنگلے کو کبھی نہیں چھوڑوں گی۔ کیونکہ مجھے اور میرے شوہر اور بیٹی کو اس بھوت بنگلے سے اور یہاں کے بھوتوں سے بےحد پیار ہے۔

horror story in hindi urdu

اُردو ڈراؤنی کہانی بھی پڑھیں پارو چڑیلپارو چڑیل کی کہانی

نوسر باز کی کہانی اردوکہانی اردو میں 

سبق آموز کہانی اردو میں پڑھیں

وہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اردواردو کہانی

ہمارے یوٹیوب چینلیوٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.