وہ کون تھی؟ بیاضِ ریاض سے

اردو مختصر سبق آموز واقعات

وہ کون تھی؟ بیاضِ ریاض سے

اردو مختصر سبق آموز واقعات

فون کی گھنٹی بڑی دیر سے بج رہی تھی۔ نمبر اجنبی سا تھا۔ میں نے توجہ نہ دی۔ جب تیسری بار متواتر گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ تو بادل نخواستہ فون اُٹھایا۔ ہیلو میں نے دھیرے سے کہا۔ دیکھو بیٹا میں نے تُمہارے شہر میں برفباری کا سُنا۔ ویڈیوز بھی دیکھی ہیں۔ خُدا کی پناہ اتنی شدید سردی۔ درجہِ حرارت منفی بارہ تک پہنچ گیا ہے۔ رات کو تو مزید ٹھنڈ ہوگی۔ اپنا بہت خیال رکھو۔ آواز کسی بزرگ خاتون کی تھی۔

 میں نے روک کر بتانا چاہا کہ مُحترمہ یہ غلط نمبر ہے۔ آپ شاید کہیں اور فون کرنا چاہ رہی تھیں۔ مگر انہوں نے موقع ہی نہیں دیا۔ بات جاری رکھی۔ موٹے کپڑے پہننا۔ سر پر ٹوپی پہنے رکھنا۔ اور ہاں گیس کے ہیٹر کا خیال رکھنا۔ رات کو سوتے ہوئے والو بند کر لینا۔ میں نے ہیٹر کی طرف دیکھا۔ جو اب بمشکل ٹِمٹما رہا تھا۔

اس شدید ٹھنڈ میں اگر گیس چلی گئی۔ تو رات کاٹنا مشکل ہو جائے گی۔ میں نے سوچا۔ دوسری طرف سے ہدایات کا سلسلہ جاری تھا۔ اور ہاں اصل بات تو میں بھول ہی گئی۔ بیٹا میرا ایک کام تو کرو۔ جی کہئیے اب میں نے ان کی باتوں کو غور سے سُننا شروع کیا۔

وہ ایسا ہے کہ ایک بہت ہی بوڑھی بُزرگ خاتون ہے۔ مری قبیلے سے کُلی کیمپ سے آگے کوہ مہردار کے دامن میں رہتی ہے۔ اکیلی ہے نظر بھی کمزور ہے لاوارث ہے۔ اس خون جما دینے والی ٹھنڈ میں خدا جانے کس حال میں ہوگی۔ تُم مہربانی کرو۔ اُس کی خبر لو۔ کُچھ گرم کمبل لحاف وغیرہ اس تک پہنچا دو۔ تُمہیں اس کی رہائش کا پتہ بتا دیتی ہوں۔

میں نے چاہا کہ انہیں روک کر بتا دوں کہ بی بی آپ نے نہ جانے کہاں رِنگ کیا۔ میں تو آپ کو جانتا تک نہیں۔ پھر نہ جانے کیوں ایسا نہ کر سکا۔ اور خاتون کے بتائے ہوئے ایڈریس کو ذہن نشین کرتا رہا۔ خاتون نے ڈھیر ساری دُعائیں دیتے ہوئے فون منقطع کر دیا۔

اب میرے ذہن نے کام کرنا شروع کیا تو مجھے یہ سب خواب سا لگا۔ حیران تھا کہ میں یہ سب سُنتا کیوں رہا۔ جی چاہا فون کر کے معزرت کر لوں۔ کہ محترمہ سوری آپ نے رانگ نمبر پے فون کیا۔ لیکن ایسا نہ کر سکا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ چُپ چاپ اُن کی ہدایت پر عمل کروں۔ لیکن اس ٹھنڈ میں باہر برف باری ہو رہی تھی۔ پانچ سات منٹ اسی سوچ بچار میں گُزر گئے۔ اور پھر میں نے فیصلہ کر لیا کہ خاتون کی ہدایت پر عمل کروں۔ نہ جانے وہ لاوارث بُڑھیا کِس حال میں ہو۔

لحاف سے باہر نکلا گرم کپڑے پہنے۔ گیلری سے ہوتا ہوا سٹور تک پہنچا۔ دروازہ کھولا اپنے کمرے سے باہر ہر شئے یخ بستہ ہو رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے بدن میں جُھر جُھری سی آگئی۔ ایک گرم لحاف، دو چادریں، تکیہ وغیرہ لے کر باہر آیا۔ سامان گاڑی میں رکھا۔ کانپتے ہاتھوں سے گیٹ کھولا۔ باہر برف کے گالے بارش کے پانی کے ساتھ زمین پر تہہ جمانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔

گاڑی نے سٹارٹ ہونے میں تھوڑا وقت لیا۔ اور تھوڑی ہی دیر بعد میں، چھاؤنی کے گُلستان روڈ پر رواں تھا۔ موڑ مُڑتے ہی زمزمہ مارکیٹ آگئی۔ سوچا کُچھ کھانے کا سامان بھی لے لوں۔ مِیر قلم کے سٹور سے( جو میر قلم کے کھو کھے کے تسلسل میں اب ایک سٹور کی شکل اختیار کر چُکا تھا) کُچھ بیکری کا سامان ساتھ لیا۔ اور گاڑی کُلی کیمپ کے راست پر ڈال دی۔

خاتون کا بتایا ہوا ایڈریس مجھے یاد تھا۔ بلکہ پورا علاقہ میرا دیکھا بھالا تھا۔ اور اگر میری یاداشت ساتھ دے رہی ہے تو چند سال پہلے میں نے ایک بُڑھیا کو چند جانوروں کو ہانک کر اوپر پہاڑ کی جانب جاتے دیکھا تھا۔ حیران تھا کہ اس انتہائی حساس علاقے میں یہ مری قبیلے کی خاتون کیسے رہائش پزیر ہے۔

معلوم ہوا چھاؤنی سے اوپر کے علاقے میں مری قبیلہ آباد تھا۔ اسی لئے اسے آج بھی مری آباد کے نام سے پُکارا جاتا ہے۔ قبیلہ یہاں سے چلا گیا۔ لیکن اِکّا دُکا لوگ اب بھی پہاڑ میں غار بنا کر رہتے ہیں۔ سیکیورٹی پر اپنی شناخت کراتے ہوئے میں کُچھ ہی دیر میں اس غار کے دہانے پر تھا جس کی نشان دہی خاتون نے کی تھی۔

غار کے منہ پر لکڑی کا دروازے نُما تختہ لٹکا ہوا تھا۔ جس کی درزوں سے دھوؤں کے کثیف بادل نکل رہے تھے۔ ایک پتھر سے دروازے کو کھٹکھٹایا۔ جواب نہ پاکر کواڑ کو دھکیلا۔ گُھپ اندھیرے میں ایک بلی میاؤں میاؤں کرتی باہر نکل آئی۔ میں نے پوچھا کوئی ہے۔ جواب میں اندھیرے کمرے کے کونے سے آواز آئی۔ آجاؤ، آ جاؤ۔ اردو مختصر سبق آموز واقعات۔

میں نے موبائل کی روشنی میں دیکھا۔ ایک نحیف نزار بُڑھیا غار کے کونے میں بوسیدہ کپڑے لپیٹے سمٹی بیٹھی تھی۔ قریب ہی چولہے میں چند گیلی لکڑیاں سُلگ رہی تھیں۔ میں نے لحاف بُڑھیا پے ڈال کے کھانے کی اشیاء قریب رکھ دیں۔ اور پوچھا امّاں، آپ ٹھیک تو ہیں۔ بُڑھیا نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے کھانے پینے کی چیزیں قریب کر کے رُخصتی کی اجازت چاہی۔ اندھیرے کمرے میں بھرے دھوؤیں سے سانس لینا مُشکل ہو رہا تھا۔ بُڑھیا نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر مجھے دُعا دی اور جانے کی اجازت دے دی۔

شدید ٹھنڈ میں کپکپاتا ہوا اپنے کمرے میں واپس آیا۔کُچھ ٹھنڈ اُتری تو چاہا کہ خاتون کو بتا دوں۔ ان کی ہدایت پر عمل کر آیا ہوں۔ موبائل پر آئے ہوئے نمبر پے رِنگ کیا۔ دوسری طرف سے کمپیوٹر کی آواز آئی۔ آپ کا مطلوبہ نمبر درست نہیں۔

شاید غلط نمبر ڈائل ہو گیا ہو۔ میں نے دوبارہ ڈائل کیا۔دو بار، تین بار، چار بار لیکن جواب ہر بار ایک ہی تھا۔ آج اس بات کو گُزرے ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اب بھی میں کبھی کبھار یہ نمبر ڈائل کر لیتا ہوں۔ جواب وہی پُرانا۔ آپ کا مطلوبہ نمبر درُست نہیں۔

اردو مختصر سبق آموز واقعات

سنار اور چور کی سبق آموز کہانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.