Urdu Kahani DSP Zamurd Khan

Urdu Kahani DSP Zamurd Khan

Urdu Kahani DSP Zamurd Khan

Urdu Kahani DSP Zamurd Khan

Urdu Kahani DSP Zamurd Khan

کیا میں بھی پکارا جاوں گا

جب 19 فروری 1992 گوجرانوالہ پولیس کا ضلعی وائرلیس کنٹرول مسسلسل چیخ رہا تھا۔۔۔۔۔کنٹرول ٹو طارق وزیر آباد۔۔۔ کنٹرول ٹو طارق وزیر آباد۔۔۔ کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں ۔۔۔ مگر دوسری جانب مکمل خاموشی تھی۔۔۔۔۔ کنٹرول ٹو طارق وزیر آباد آپ کا میسج اعلی افسران کو دے دیا گیا ہے اور پولیس کی امدادی ٹیمیں آپ کی طرف روانہ ہیں۔

لیکن چہرے پر لگنے والی گولیوں نے ڈی ایس پی وزیر آباد کی بینائی کو بری طرح متاثر کیا تھا اور بے ہوش ہونے سے پہلے وائرلیس نیٹ ورک پر ان کےآخری پیغام کے بعد ان کا رابطہ ضلعی وائرلیس کنٹرول منقطع ہو چکا تھا۔آج ہی صبح 5 بجے شدید سردی اور دھند میں لپٹے وزیر آباد میں ایک نیلے رنگ کی سوزوکی کار پر سوار تین انتہائی خطرناک ملزمان نے ضلعی ٹیکس چونگی کو لوٹا تھا۔

Urdu Kahani DSP Zamurd Khan

اس کے تھوڑی دیر بعد ہی ایک ٹویوٹا ہائی ایس چھینی اور اسی ٹویوٹا ہائی ایس پر پیپلز کالونی الائیڈ بنک سے دو لاکھ روپے لوٹنے کے دوران بینک مینجر اور گن مین کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ پولیس کو چکمہ دینے کے لیئے ملزمان نے بائی پاس روڈ پر ٹیوٹا ہائی ایس کو چھوڑ دیا اورایک مرتبہ پھر اسی سوزوکی کار پر سوار ہوچکے تھے۔ وزیر آباد میں یکے بعد دیگرے ان سنگین وارداتوں نے پولیس کو بوکھلا کر رکھ دیا۔ ڈی ایس پی وزیر آباد زمرد خان جی ٹی روڈ کے نزدیک کینال روڈ کے چوراہے پر موجود تھے جب انہوں نے وائرلیس پر سنا کہ گوجرانوالہ میں بینک لوٹ لیا گیا ہے اور ڈاکو فرار ہو رہے ہیں۔

اسی دوران ڈی ایس پی نے ایک نیلی سوزوکی کار کو انتہائی تیزی سے اوجلہ نہر کی دائیں پٹڑی پر جاتے دیکھا اور اپنی جیپ کو اس گاڑی کے تعاقب میں ڈال دیا ۔ لحظہ بہ لحظہ پولیس کی گاڑی اور سوزوکی کے درمیان فاصلہ کم ہوتا جا رہا تھا۔ ملزمان نے تعاقب میں بالکل قریب پہنچتی پولیس جیپ کو دیکھ کراچانک اپنی گاڑی کو روک لیا اور اس میں موجود تین بندوق بردار باہر نکل آئے اورباہر نکلتے ہی اپنی جانب بڑھتی جیپ پر جی تھری اورکلاشنکوفوں سے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔

گولیوں کی بوچھاڑ نے جیپ کی ونڈ سکرین کو چکنا چور کر دیا اور گولیاں ڈی ایس پی کے سینے اورسر پر جا لگیں۔ سینے سے لہو کا فوارا ابل پڑا۔ چہرے پر لگنے والی گولیوں نے بصارت کو اتنا متاثر کیا کہ زمرد خان کو کچھ بھی نظر آنا بند ہو گیا۔ محض قوتِ ارادی کے بل پر ہاتھ میں پکڑے وائرلیس سیٹ پر ضلعی وائرلیس نیٹ ورک کو اس مقابلے کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے اچانک بے ہوش ہوگئے۔ ڈٰی ایس پی کے ہمراہ گن مینوں نے اپنے حواس برقرار رکھے اور کمال جرات سے حملہ آور مجرموں کو جوابی فائرنگ میں الجھا دیا ۔

سوزوکی گاڑی کے ٹائر پولیس کے ان جوانوں کی جوابی فائرنگ سے پھٹ چکے تھے۔ اسی وجہ سے ملزمان گاڑی چھوڑ کر نہر کے دائیں بائیں گھنی فصلوں میں اترنے پر مجبور ہو گئے۔ گھنے درختوں اور فصلوں کی قدرتی آڑکا فائدہ ملزمان کو حاصل تھا اوراب وہ اسی اوٹ سے ان کی طرف اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے۔

Urdu Kahani DSP Zamurd Khan

اسی دوران گولیوں کی ایک باڑھ کی لپیٹ میں آکر یہ دونوں جوان شفقت اور صدیق بھی شدید زخمی ہو گئے۔ صبح کی پے در پے سنگین وارداتوں نے حافظ آباد کی پولیس کو ھلا کر رکھ دیا تھا اور اب وائیرلیس کنٹرول پر پولیس مقابلے کا سن کر پولیس نے اوجلا کلاں پہنچنے میں کوئی دیر نہ لگائی۔ پولیس کی امدادی کمک کو دیکھتے ہوئے ملزمان نے پینترا بدلا اور فصلوں کے بیچ ایک پختہ ڈیرے میں جا گھسے اوروہاں موجود بوٹا مسیح اسکی بیوی نسرین ،بیٹی چاندی ، سونیا اور ایک چھوٹے بچے کو یرغمال بنا کر مورچہ زن ہو گئے۔

اوجلا کلاں کا معرکہ شروع ہو چکا تھاملزمان کو اب پختہ دیواروں کی حفاظت حاصل تھی جبکہ ہموار زمین پر کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کے پیچھے پولیس آڑ لے سکتی ۔ اصل پریشان کن مسئلہ یرغمالیوں کی موجودگی کا تھا۔۔ جس نے پولیس کو اپنی حکمت عملی میں مزید محتاط رہنے پر مجبورکر دیا تھا۔ پولیس کے لیئے انتخاب بہت مشکل تھا۔ لیکن وہ کسی بھی صورت میں ایسا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی جس سے یرغمالیوں کو گزند پہنچے۔

مساجد سے کروائے گئے اعلانات اور ملزمان کو اعتماد میں لینے کی ہر کوشش کا جواب جی تھری رائفل کے برسٹ کی صورت میں ملتا۔ اسی صورتحال کے پیش نظر گوجرانولہ، گجرات اورسیالکوٹ کی پولیس کو بھی طلب کر لیا گیا اور ان تمام اضلاع کی پولیس نے ڈیرے کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ ملزمان نے ڈیرے کی پختہ دیواروں سے اینٹین نکال کر سوراخ بنا لیئے تھے اور انہی سے وقفے وقفے سے فائرنگ کر رہے تھے ۔

ڈیرے کی اطراف میں ھموار زمین ہونے کی وجہ سے چھپاو اور تلبیس بالکل ناممکن تھی اور کرالنگ کر کے بڑھتی پولیس کھلے عام فائرنگ کی زد میں تھی۔ ڈاکووں کی ٹیلی سکوپ لگی جی تھری سے ہونے والی فائرنگ قیامت ڈھا رہی تھی اور کسی ماہر سنائپر سے بھی بڑھ کر پولیس کا نقصان کر رہی تھی ۔

ڈرونی کہانیاں لازمی پڑھیں https://urduarticles.pk/urdu-short-horror-stories/

اے ایس آئی سیف اللہ، کانسٹیبل محمد افضل اور ارشد محمود ڈیرے کے انتہائی نزدیک پہنچ چکے تھے کہ کلاشنکوف کے ایک برسٹ کی زد میں آکر تینوں موقع پر ہی شہید ہو گئے ۔ پیٹ کے بل رینگتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش بہت مہنگی پڑ رہی تھی۔ پولیس کے سامنے سب پہلی ترجیح یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی تھی اور یرغمالیوں کی موجودگی کی وجہ سے وہ محتاط دفاعی فائرنگ کرنے پر مجبور تھی ۔

لاہور پولیس سے منگوائی گئی ایک بکتر بند گاڑی کو گولیوں کی بوچھاڑ میں ڈیرہ کی طرف انتہائی سرعت سے روانہ کیا گیا جو ڈیرے کی دیوار کو توڑتے ہوئے اندر داخل ہو گئی۔ بکتر بند گاڑی میں موجود جوانوں نے انتہائی پھرتی اور پیشہ وارانہ ہنرمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یرغمالیوں کو رہا کروا لیا۔

Urdu Kahani DSP Zamurd Khan

لیکن اسی دوران بکتر بند گاڑی کی آڑ لیکر آگے بڑھنے والے جوانوں پر ایک ملزم نے باہر نکل کر فائرنگ شروع کر دی اور دس جوانوں کو بری طرح گھائل کر دیا ۔اسی دوران چار جوانوں نے انسپکٹر فاروق خان کی قیادت میں مشرقی سمت سےکمین گاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن ایک گولی انسپکٹر فاروق خان کے سر میں آن لگی اور وہ موقع پر شہید ہو گئے۔ ان کے ھمراہ آنے والے چاروں جوان بھی فائرنگ کی لپیٹ میں کر شدید زخمی ھو گئے۔ شمالی سمت سے ڈیرے کی طرف بڑھتے ایس ایچ او تھانہ پیپلز کالونی انسپکٹر ذوالفقارعلی اور سی آئی اے گجرات کے انسپکٹر یونس، اے ایس آئی فیض اور چھ جوان ڈیرے کے صحن میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ اچانک ایک کمرہ سے ایک ملزم باہر نکلا اور گولیوں کی بوچھاڑ سے ان سب کو شدید زخمی کر دیا۔

یہی حال جنوبی جانب اے ایس آئی سیف اللہ پانچ جوانوں اور غربی جانب اے ایس آئی الیاس چیمہ کے جوانوں کے ساتھ ہوا۔ یہ مقابلہ انتہائی خونریز اور شدید تھا ۔جوان اور افسر مسلسل زخمی ہورہے تھے پولیس اپنی قیادت کی پکار پر جانوں اور خون کا نذرانہ والہانہ دے رہی تھی۔ بدھ کی صبح گیارہ بجے سے رات نو بجے تک جاری رہنے والے اس مقابلے میں پولیس کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔

یہ کہانی بھی پڑھیں https://urduarticles.pk/hazrat-bayazid-bastami-ka-padri-sa-moqalma-islamic-stories-in-urdu/

اس کے آٹھ جوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں اور 35 شدید زخمی ہوئے ۔ رات گئے تک جاری رہنے والے اس مقابلے میں بین الاضلاعی خطرناک گروہ کے ڈاکو بشیر(سکھیکی)، احسن گلاں والا (گجرات) اور بعد میں افضل (گجرات) اپنے انجام کو پہنچے۔سائرن بجاتی ایمبولینسوں میں شہدا اور مسلسل زخمی ہونے والے جوانوں لایا جا رہا تھا اور ہسپتال کے باہر ہزاروں شہریوں کا جوش و خروش دیدنی تھا جوخون کا عطیہ دینے کے لئیے لمبی قطاریں بنائے کھڑے تھے۔

ہر آنے والے زخمی کا استقبال تکبیر کے نعروں اور بے تحاشا گل پاشی سے کیا جاتا۔ ہسپتال کی روشیں پھول کی پتیوں سے اٹی پڑی تھیں۔ شہدا کے جسد خاکی آٹھ ایمبولینسوں میں ہسپتال کے احاطے میں لائے جا رہے تھے۔ ہر آنکھ اشکبار تھی ہر زبان پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری تھا۔ ہر خاص و عام میت کو کندھا دینے کے لیئے دیوانہ وار آگے آ رہا تھا۔

اوجلہ کلاں کے قطار اندر قطار اٹھتے شہدا کے تابوت اور ہسپتال کی راہداریوں میں بدن دریدہ جوانوں کے سٹریچروں کو دھکیلتے ،دوڑتے بھاگتے طبی عملے نے میرے زمانہ طالب علمی کی یادوں پر انمٹ نشان چھوڑے۔ “ھلاک” “جاں بحق” اور “شہید” کے سابقوں لاحقوں کے درمیان اپنی شناخت تلاش کرتی اس جماعت(پولیس) کا حصہ بننے کے میرے تیئیس سالہ دورانیے میں شاید ہی کوئی دن ہو گا جب کسی چوک، کسی چوراہے، گلی کے کسی موڑ پر برپا ہونے والے کسی معرکے کی خبر نظر سے نہ گزری ہو۔

لیکن پھر ہر ایسی “ایک سطری” خبر،فلموں، ٹی وی ڈراموں، ٹاک شوز اور اسٹیج کی جگتوں میں تحقیر اور استہزا کی مسلسل اٹھتی گرد میں کہیں کھو جاتی ہے۔ بیرونی محاذوں اور مورچوں میں ڈٹے شیردل جوان، دشمن کے آتشیں ہتھیاروں، توپوں، مشین گنوں اور بندوقوں کی آگ اگلتی زبانوں کے لب و لہجوں اور للکار میں بخوبی تمیز کر سکتے ہیں لیکن بیرونی سرحد وں سے کہیں طویل اندرونی سرحدات اور مورچے جہاں “نہ کوئی سیز فائر لائن” ہے نہ ”نو مینز لینڈ”، نہ کوئی باڑ ہے نہ خندق، کوئی مستقل دید گاہ نہ دید بان۔

نہ دوست دشمن کے چہروں کی کوئی تممیز نہ لب لہجے کا کوئی امتیاز۔۔زبان بھی وہی لباس بھی وہی۔۔۔وہاں دشمن کھلا ، واضع اور بالمقابل لیکن یہاں اپنے جیسے انگنت بے شناخت چہروں کے ہجوم میں گم “بکل کا وہ چور” جسے ہر دیوار، ہر آڑ، ہر جھگی جھونپڑی اور جھوک پناہ دینے کو تیار ہے ۔ اس پا پیادہ، بے بکتروبے زرہ کانسٹیبل کا سامنا اُس بے چہرہ اور انجانے دشمن سے ہے جس کے ہاتھوں میں پہلے وار کا اختیارہے۔ جبکہ ہجوم میں اجنبی،اپنوں اور غیروں کا دھتکارا ہوا یہ جانباز۔

Top 10 most expensive cars in the World https://urduarticles.pk/top-10-most-expensive-cars/

سر پر ٹوپی ہاتھ میں سوٹی، آنکھ میں لالی اور لب پر گالی کے واحد “مستند” حوالہ شناخت کا سزاوار۔ سیاسی، سماجی اور “انتظامی” مصلحتوں کا “مسلمہ گناہگار”

(تحریر منصورالحسن)

Urdu Kahani DSP Zamurd Khan

یہ حافظ الاسد کا زمانہ تھا دمشق https://urduarticles.pk/short-urdu-stories/

سچی ادرو کہانی https://urduarticles.pk/woh-idhar-udhar-dakh-urdu-articles-websites/

Keywords : urdu articles ,urdu articles websites , urdu articles for students , urdu blogs and articles ,urdu articles on life , interesting urdu articles , articles in urdu language , urdu articles on social issues , urdu articles on current affairs , urdupoint article , urdu articles pdf , short articles in urdu , best articles in urdu , cosmopolitan magazine in urdu pdf , today article in urdu , book review in urdu language , book review examples in urdu , urdu novels book reviews in urdu , urdu adab articles , latest urdu articles , free urdu articles , article on allama iqbal in urdu , social media articles in urdu , urdu novels book reviews , self improvement articles in urdu pdf

Comments are closed.