اولاد ان کے آخری دیدار کے لیئے نہیں آئی

Stories in Urdu Written

Stories in Urdu Written

Stories in Urdu Written

اولاد ان کے آخری دیدار کے لیئے نہیں آئی؟

وہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا۔ پاکستان میں سے اس نے کروڑوں روپے کمائے تھے۔ اور کمائی کے معاملے میں حلال حرام کی تمیز کبھی نہیں کی تھی۔ اس نے اپنی اولاد کو تعلیم دلوانے کے لیے امریکہ بھیج رکھا تھا۔ جب اولاد پڑھ کر فارغ ہوئی اور وہیں سیٹ ہو گئی تو وہ بھی اپنا مسیحائی والا کاروبار سمیٹ کر امریکہ جا بسا تھا۔

جہاں اس نے کروڑوں ڈالر جمع کر رکھے تھے اور بیٹے کے ساتھ مل کر ایک ذاتی ہسپتال بنا لیا تھا امریکہ جانے سے پہلے اس نے پاکستان میں ایک آخری ظلم کیا تھا اور آخری رشوت لی تھی جس کے بعد وہ ملک چھوڑ کر چلا گیا اور پاکستان سے جاتے ہی اس کا مکافات عمل شروع ہو گیا تھا۔

Short Moral Stories in Urdu

اس کا نام ڈاکٹر خالد شاہنواز تھا۔ تعلق سندھ سے تھا انتہائی متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر بلا کا ذہین تھا پڑھائی میں ہمیشہ پہلے نمبر پر رہا تھا۔ اور یہ ہی وجہ تھی کہ اس کو گورنمنٹ کی طرف میڈیکل کی تعلیم مفت دلوانے کے علاؤہ ماہانہ وظیفے کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ تا کہ اس ملک کی خدمت کر سکے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوران تعلیم ہی اس نے مختلف پرائیویٹ ہسپتالوں میں بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔

یہاں تک تعلیم مکمل کرتے کرتے اسے نہ صرف کام تجربہ ہو گیا۔ بلکہ وہ یہ بھی سمجھ چکا تھا کہ بنا مریض کا احساس کئیے انسانیت کے جذبے کو مار کر کیسے سے کمیشن کی خاطر علاج کے نام پر غریب لوگوں کو بغیر ضرورت ہے۔ ادویات دینی ہیں یہاں تک اپنی کمیشن ہاتھ سے نہیں جانے دینی چاہے سامنے والے انسان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

یہ سب کچھ سیکھ کر بجائے سدھرنے کے تعلیم مکمل ہوتے ہی ڈاکٹر صاحب نے پرائیویٹ ہسپتال میں بیٹھ کر حلال حرام کی تفریق کے بنا ہی پیسہ کمانا شروع کر دیا تھا۔ اور ساتھ گورنمنٹ ملازمت کی تلاش جاری رکھی تھی جو اسے جلد ہی مل گئی تھی اور گورنمنٹ کی ملازمت ملتے ہی اس نے کی دولت میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ ہونے لگا تھا۔

Jaisi Karni Waisi Bharni Story in Urdu

سندھ کے اندر وڈیروں کے تشدد سے ٹوٹ جانے والی ہڈی پسلی کو وہ میڈیکل رپورٹ میں حادثاتی طور پر ٹوٹی ہوئی ہڈی قرار دے دیتا تھا۔ یا پھر اسے خود ساختہ چوٹ قرار دے دیتا تھا۔ یہاں تک کہ وڈیروں جاگیرداروں کے ہاتھوں مر جانے لوگوں کی موت کو طبعی موت یا خود کشی کا رنگ دے دیتا۔ اور ان وڈیروں جاگیرداروں کے ہاتھوں عزت لٹانے والی مجبور و لاچار لڑکیوں کی میڈیکل رپورٹ تبدیل کر دیتا۔ اس سب کے بدلے وہ لاکھوں روپے وصول کرتا تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ملازمت کے محض پانچ سال بعد ہی وہ کروڑ پتی بن گیا تھا۔

بعد ازاں جب حرام کی کمائی پاکستان میں سنبھال کر رکھنا اسے مشکل لگنے لگا تو اس نے اپنی دولت امریکہ منتقل کرنا شروع کر دی۔ اور مستقبل بعید میں خود بھی وہیں جا کر اپنا مسکن بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنی ملازمت پوری کرے گا کیونکہ وہ ہمیشہ ظالموں کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ اور ان ہی کو سپورٹ کی تھی اس نے شادی بھی ایک جاگیردار کی بیٹی سے کی تھی۔

تا کہ سیاسی طور پر مضبوط رہے اور ملازمت میں کوئی خلل نہ آئے۔ دو بچوں کے بعد اس نے بیوی بچوں کو امریکہ بھیج دیا اور خود پاکستان میں اپنے ہسپتال بنا لئیے۔ جو اس ملک کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔ یہاں سے حلال حرام کما کر امریکہ بھیجتا رہا۔ جہاں اس کی اولاد اس پیسے پر پرورش پاتی رہی۔

آج اسلامی تاریخ کون سی ہے

اس کے پاس آخری کیس ایک لڑکی کا آیا تھا۔ جو یتیم تھی اس کا باپ ہاری تھا۔ اور وڈیرے کا تشدد سہتے سہتے مر گیا تھا۔ بعد ازاں وڈیرے نے اسی یتیم لڑکی کو ڈرا دھمکا کر نکاح کر لیا تھا۔ اور جب اپنی ہوس مٹا چکا دل اس غریب مزدور کی بیٹی سے اکتا چکا۔  تو اس نے لڑکی کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی تھی۔ مگر نجانے کیسی لڑکی کی ماں موقع پر پہنچ گئی۔ اور مجبوراً اسے لڑکی کی والدہ کے ساتھ لڑکی کو لے کر ہسپتال جانا پڑا۔ ہسپتال پہنچ کر لڑکی نے اپنی والدہ کو سب کچھ بتا دیا تھا کہ کس طرح اس کے شوہر نے اسے زہر دے کر مارنے کی کوشش کی ہے۔

لڑکی کے بتانے کے بعد اس کی والدہ نے ہسپتال میں ہی دوہائی دینا شروع کر دی تھی۔ جب لڑکی کے شوہر نے حالات بگڑتے دیکھے تو ڈاکٹر خالد شاہنواز کو کہا اگر کسی طرح لڑکی مر جائے۔ اور یہ ثابت نہ ہو کہ اسے زہر دیا گیا ہے تو میں تمہیں منہ مانگی رقم دوں گا۔ یوں ڈاکٹر صاحب نے آخری بار منہ اور جیب بھر کر رشوت وصول کی۔ اور لڑکی کی موت کو خودکشی قرار دے کر کیس کو قانونی چارہ جوئی سے پہلے ہی ختم کر دیا۔ لڑکی کی والدہ کے شور مچانے ڈاکٹر صاحب نے اپنے گارڈز کو حکم دیا۔ اور درندے نما گارڈز بنا صنفی امتیاز جانے عورت کو تھپڑ اور بندوق کے بٹ مارتے ہوئے ہسپتال سے باہر پھینک آئے۔

لڑکی کی لاش اس کے قاتل شوہر حوالے کر دی گئی علاقے میں بتا دیا گیا کہ لڑکی کو اس کے شوہر غیر محرم مرد کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔ اور شوہر کے خوف کی وجہ سے لڑکی خود کشی کر گئی۔ یوں وڈیرہ بھی بچ گیا لڑکی بھی مر گئی۔ اور تہمت کے بعد لڑکی کا کردار بھی مر گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے جیب اور منہ بھر کر رشوت وصول کی ریٹائرمنٹ لے کر امریکہ اپنی فیملی کے پاس منتقل ہو گئے۔

اولاد جو یورپی ماحول میں پلی بڑھی تھی۔ والد سے ہمیشہ دور رہی تھی ان کے لئیے ڈاکٹر صاحب کا ہونا محض ایک اضافی وجود کا ہونا تھا۔ انہیں اپنے والد سے کوئی محبت نہیں تھی۔ والد صاحب نے جیسے تیسے کر کے بیٹے کے ساتھ ایک ہسپتال بنایا۔ جس میں بیٹے اور بیٹی کو برابر کا حصہ دیا۔ مگر بیٹی نے اپنے بوائے فرینڈ کے کہنے پر ہسپتال سے اپنا حصہ الگ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ یوں اونے پونے داموں ہسپتال بیچ کر بیٹی کو رقم دی گئی۔

اور اور باپ اسی صدمے سے فالج کا مریض ہو گیا۔ اس کہ ساری زندگی کی حرام کی کمائی محض ایک سال میں ہی ختم ہو گئی تھی۔ بیٹے نے ان پیسوں سے اپنا بزنس شروع کر لیا۔ بیٹی بوائے فرینڈ کو لے کر لندن چلی گئی جبکہ ڈاکٹر صاحب کے فالج زدہ وجود کو ایک پرائیویٹ ادارے کے حوالے کر دیا گیا۔

Stories in Urdu Written

چند دن پہلے ڈاکٹر صاحب کا انتقال ہو گیا۔ تین دن تک ان لاش ان کے بیٹے کے انتظار میں پڑی رہی۔ اور بیٹا آج آنے کل انے اور لاش وصول کرنے کا کہتا رہا۔ مجبوراً جب لاش گلنے سڑنے لگی تو اسے بنا کفن جنازے کے دفن کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اور جب یہ بات ایک انڈین ہندو کو پتہ چلی تو اس نے چند ہندوستانی مسلمانوں سے کہہ کر مردہ حالت میں پڑے ڈاکٹر صاحب کو غسل اور کفن دلوایا۔ ان کا جنازہ پڑھایا اور انہیں دفن کر دیا گیا۔

ڈاکٹر صاحب نے جس مقتولہ کی ماں کو دھکے دے کر ہسپتال سے نکالا تھا اس نے بد دعا دیتے ہوئے کہا تھا۔ڈاکٹر تم نے مجھ پر یہ زمین تنگ کر دی ہے خدا تم پر قبر کی زمین تنگ کر دے ۔ اس کی بد دعا پوری ہوئی اور جس قبر میں ڈاکٹر صاحب کو اتارا گیا۔ وہ ان کے وجود سے بہت زیادہ تنگ تھی۔ مجبوراً بزور بازو قبر میں لٹایا گیا۔ اور مٹی ڈال دی گئی مگر افسوس جس اولاد کی خاطر انہوں نے ساری زندگی خدا کے احکامات کو پس پشت ڈال کر زندگی گزاری۔ آج وہ ہی اولاد ان کے آخری دیدار کے لئیے نہیں آئی۔

بادشاہ بننے کا نسخہ اردو اخلاقی کہانی

اختتام

تحریر

شازل سعید

Stories in Urdu Written

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.